|
|
بڑوں کا کہنا ہے کہ جوان اولاد کا دکھ بہت گہرا ہوتا ہے
اور یہ دکھ اگر جوان بیٹے کا ہو تو ماں باپ کو جیتے جی درگور کر دیتا ہے۔
گھبرو جوان بیٹے کا لاشہ سامنے دیکھ کر ماں باپ کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے ان کے
لیے زندگی بے معنی ہو جاتی ہے وقت کے ساتھ آنسو تو خشک ہو جاتے ہیں مگر دکھ
کم نہیں ہوتا- |
|
دکھ کو طاقت
بنا لینے والا باپ |
ایسا ہی ایک باپ دادا راؤ بھی ہے جس کا تعلق
بمبئی سے ہے آٹھ سال قبل اس کا جوان بیٹا بائیک پر ایک روز گھر سے نکلا مگر
سڑک پر موجود ایک گڑھے کی وجہ سے اس کی بائک بے قابو ہو گئی اور وہ ٹریفک
حادثے کے سبب خالق حقیقی سے جا ملا- |
|
بیٹے کی موت کے صدمے نے دادا راؤ کو توڑ
ڈالا اپنے اس دکھ کو سینے میں چھپا کر انہوں نے ایک انوکھا فیصلہ کیا اور
بمبئی کے تمام نوجوانوں کو سڑک پر موجود ان موت کے گڑھوں سے بچانے کے لیے
نکل کھڑے ہوئے- |
|
ہر اتوار
شہر کے مرکز میں |
دادا راؤ نے جوان بیٹے کے مرنے کے بعد ہر
اتوار کی صبح بمبئی شہر کی سڑکوں پر نکل جانا اس کے ساتھ اس کا کچھ مخصوص
سامان ہوتا اور اس کا کام سڑکوں پر موجود گڑھوں کی تلاش ہوتی- |
|
|
|
کسی بھی گڑھے کو دیکھ کر دادا راؤ اپنے کام پر جت جاتا
اور اپنی مدد آپ کے تحت ان گڑھوں کو بھرتا دادا راؤ کا یہ ماننا ہے کہ اس
عمل سے وہ کسی بھی اور جوان کی جان کو خطرے سے بچاتا ہے- |
|
دادا راؤ اب تک گزشتہ آٹھ سالوں میں پندرہ سو گڑھے بند
کر چکا ہے مگر اس کے باوجود ہر اتوار کو سڑکوں پر اس کے لئے نئے گڑھے تیار
ہوتے ہیں- تاہم دادا راؤ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ سینکڑوں لوگوں
کی جان بچا چکا ہے- |
|
میرا بیٹا
بھی بچ سکتا تھا |
دادا راؤ اپنے اس عمل کا مقصد بتاتے ہوئے
کہتے ہیں کہ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس دن وہ گڑھا بھرا ہوتا تو ان کا
بیٹا اس حادثے کا شکار نہ ہوتا اور اس کی زندگی بچ بھی سکتی تھی- اس وجہ سے
دوسرے نوجوانوں کی جان بچانے کو وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے ہر اتوار کے دن
بمبئی کی سڑکوں پر ایسے گڑھوں کو تلاش کرتے ہیں اور ان کو بھر کر سڑک کو
ہموار کر دیتے ہیں- |
|
|
|
دادا راؤ کی اس نیکی نے ان کو سوشل میڈیا پر
وائرل کر دیا ہے اور لوگ نہ صرف ان سے ان کا دکھ بانٹ رہے ہیں بلکہ اس کے
ساتھ ساتھ ان کے اس عمل کی بھی تعریف کر رہے ہیں- |