پڑوسیوں سے چارپائیاں اور بستر مانگے جاتے، ماضی کی شادیاں آج سے مختلف کیسے ہوتی تھیں جنہیں اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں

image
 
شادی کا دوسرے معنی خوشی کے ہوتے ہیں اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشی کو اپنے قریبی لوگوں سے بانٹ کر اس خوشی کے لطف کو دوبالا کرنا چاہتا ہے- اس وجہ سے شادی بیاہ کے موقع پر عزیز واقارب کا اکٹھا ہونا ہماری معاشرت کا ایک حسن ہے-
 
ماضی کی شادی بیاہ کی تیاریاں
آج کل کے دور میں جب زندگی بہت مصروف ہو چکی ہے شادی بیاہ کے موقع پر قریب ترین عزیز و اقارب بھی مہمانوں کی طرح شرکت کرتے ہیں- مگر ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا شادی بیاہ کے فنکشن میں قریب و دور کے تمام عزیز نہ صرف شرکت کرتے تھے بلکہ یہ شرکت صرف کچھ لمحوں کے لیے نہیں ہوتی تھی بلکہ دور پار سے بھی سب لوگ ایک دوسرے کی خوشی میں نہ صرف شرکت کرنے آتے تھے اور شادی کی تقریبات میں شرکت کے لیے کئی کئی دن تک رکتے بھی تھے- ایسے موقع پر شادی کے گھر میں جو تیاریاں کی جاتی تھیں وہ کچھ اس طرح سے ہوتی تھیں-
 
1: منجیاں یا چارپائیاں جمع کی جاتی تھیں
مہمان نوازی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خصوصیت ہے اور مہمان کے لیے آرام دہ بستر اور مزيدار کھانا سب سے اہم اہتمام ہوتا تھا جس کے لیے تیاری بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی- عام طور پر ہر گھر میں چارپائياں محدود ہوتی ہیں اس وجہ سے شادی بیاہ کے موقع پر اریب قریب سب گھروں سے چارپائياں جمع کی جاتی تھیں شناخت کے لیے ہر بندے کی چارپائی پر اس کا نام موٹے مارکر سے لکھا جاتا تھا تاکہ شادی کے بعد واپس کرنے میں کسی قسم کی مشکل نہ ہو-
image
 
2: بستر برابر کیے جاتے تھے
ویسے تو عام طور پر آٹھ سے دس مہمانوں کے بستر برابر کرنا ہر سگھڑ عورت کی نشانی سمجھی جاتی مگر اتنی بڑی تعداد میں بستر جمع کرنے کے لیے بھی آس پڑوس کے لوگ ہی کام آتے تھے- ان سے بستر مستعار لیے جاتے تھے عام طور پر شادیاں سردی کے موسم میں ہوتی تھیں اس وجہ سے پیٹیوں سے نکلی ہوئی رضائيوں میں سے فنائل کی گولیوں کی مہک آرہی ہوتی تھی جو کہ مہمانوں کو سونے کے لیے دیے جاتے تھے- اس کے باوجود بھی گھر کے افراد کے لیے نہ تو چارپائياں بچتی تھیں اور نہ ہی بستر اس وجہ سے وہ گھر کے گونے کھدروں میں کسی نہ کسی طرح گزارہ کرتے تھے- مگر ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو-
image
 
3: بڑی مقدار میں ناشتے اور کھانے کا اہتمام
میزبان ناشتے کی تیاری رات کو سونے سے قبل ہی کر کے سوتے تھے کیونکہ فجر کے ساتھ ہی ناشتے کی شفٹیں چلنی شروع ہو جاتی تھیں۔ سب سے پہلے بڑی عمر کے لوگوں کو ناشتہ دیا جاتا تھا جو کہ فجر کی نماز کے وقت ہی بیدار ہو جاتے تھے- ناشتے میں مہمانوں کی پسند کے حساب سے پراٹھے کچوریاں چائے دودھ لسی ہر طرح کی اشیا موجود ہوتیں اس کی تیاری خواتین خانہ کے ذمے ہوتی جس میں قریبی مہمان خواتین بھی ہاتھ بٹاتیں- کوئی پراٹھے اور پوریاں بیلتا کوئی ان کو توے پر ڈالتا یا کڑاہی میں ڈالتا اس کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیوں کے ذمے ان کو مہمانوں کے سامنے پروسنا ہوتا جس کے بعد اگلا مرحلہ بستروں کو سمیٹنے اور برتنوں کو دھونے کا ہوتا جس میں خواتین مل بانٹ کر یہ کام سمیٹتیں- جس کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی چلتی رہتی مہندیاں لگائی جاتیں غرض انہی باتوں میں دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کی تیاری بھی ساتھ ساتھ کی جاتی-
image
 
4: جگراتے کیے جاتے تھے
شادی کا موقع ہو اور جگ راتے نہ ہوں یہ تو ممکن نہیں ہوتا ڈھول کی تھاپ پر رقص، گانے اس کے ساتھ کشمیری چائے اور باقر خانیاں اور ڈرائی فروٹ کو چکھتے ہوئے لحاف اور صندلی میں بیٹھ کر بڑے بزرگ اپنے قصے سناتے- سب لوگ اپنے اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ اپنی دلچسپی کے موضوعات پر باتیں کرتے قربتیں بڑھاتے اور اس دوران اگر کوئی سو جاتا تو اس کے منہ پر توے کی کالک مل دی جاتی جس کا پتہ اس کو صبح چلتا جس کے بعد ایک شرمندگی الگ سی ہوتی-
image
 
5: ایک شادی پر کئی رشتے طے ہوتے
ایک شادی کئی اور شادیوں کی شروعات بن جاتی اسی موقع پر اپنے بچوں کے لیے رشتے پسند کیے جاتے رشتے ڈالے جاتے اور وہیں پر مبارک سلامت بھی ہو جاتی اور اس طرح نئی شادیاں طے ہو جاتی تھیں اور اگلے سال اس طرح کئی اور ملنے کا موقع بن جاتا- سادہ سے انداز میں سب ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ایک دوسرے کے ساتھ ملتے اور شادی کے اختتام پر جب ایک دوسرے سے جدا ہوتے تو خوشی کے ساتھ ساتھ سب کی آنکھیں چھلک رہی ہوتیں اور پھر ملنے کے وعدے ہوتے-
image
 
یہ سب چیزیں آج کی مصروفیات میں کہیں گم ہو گئی ہیں اب تو شادی ہال میں شادیاں ہوتی ہیں سب مہمان وہیں آتے ہیں چند لمحوں کے لیے ملتے ہیں اور وہیں سے رخصت بھی ہو جاتے ہیں اور شادی کرنے والے بھی ہال سے اکیلے تن تنہا گھر آجاتے ہیں اور سو جاتے ہیں کیونکہ صبح سب کو اپنے اپنے کاموں پر جانا ہوتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: