انا پرستی ایک ایسا مرض ہے کہ جو اچھے خاصے انسان کو
برباد کر دینے کا ہنر رکھتا ہے اور اس مرض میں انسان اپنے آپ میں ایک "میں"
نامی شَے سے ملتا ہے جو اس کے زوال کا سبب بنتا ہے اور انا پرستی ایک ایسا
سمندر ہے کہ جس کی گہرائی کا اندازہ انسان اپنی زوال سے باخوبی لگا سکتا
ہے۔
انا پرستی کسی بھی شخص میں پیدائشی ایّام کے وقتوں سے نہیں ہوتی جبکہ اسے
ہم اور آپ خود پروان چڑھاتے ہیں اور سارا بوجھ قدرت کے حصّے میں ڈال کر
پاکی کا لباده اوڑھ کر کچھ دنوں کی فرصت کے بعد وہی "میں" والی زبان کو
اپنے کردار میں واپسی لے آتے ہیں۔
انا پرستی ایک ایسا گناہ ہے کہ جسکا کفارہ انسان دنیا میں ہی وصول کرلیتا
ہے۔ یہ جو لفظ "میں" انا پرستی کا ساتھی ہے یہ بہت ظالم ہے کہ جو انسانی
نفسیات پر اس قدر ہاوی ہوتا ہے کہ انسان کو سوچنے، سمجھنے اور صحیح فیصلے
لینے پر بھی زیرِ غور اجازت نہیں دیتا۔
"میں" کا تعلق صرف اپنی ذات سے ہوتا ہے مطلب کہ جو کچھ بھی ہوں بس میں ہی
ہوں، جو میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا بس یہی پتھر کی لکیر سمجھو وغیرہ۔
انا پرستی کی اس آگ میں جھونکنے میں کئ اہم کردار ہمارے اپنے ادا کر جاتے
ہیں۔ کبھی بلا وجہ باتوں کی چُھوٹ دینے سے تو کبھی غلط بات پر حمایتی بننے
سے جو کہ ان کے اپنے کسی پیارے کے مستقبل کے برباد ہونے کا کُھلا اعلان کر
رہا ہوتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی آپ کو اس آگ کے دللدل میں جھونک ہی رہا ہو۔ کچھ
ایسے ہیرے آپ نے زندگی میں قدرت سے ضرور بٹورے ہوتے ہیں کہ جو آپ جیسے
کُھوٹے سکّے کو دنیا کے بازار میں ایک اچھے کی صورت میں پیش کرنے کی ہر
ممکن کوشش کرتا ہے۔
انسان جب اپنی تقدیر میں برائی لکھوا لیتا ہے تو وہ اپنے محسن کو بھی اپنا
دشمن ہی جانتا ہے جبکہ آپ کی زندگی کا قدرتی ہیرا آپ کو زندگی کی دوڑ میں
اچھے بھلے سے آگاہی کے ساتھ ساتھ سیدھا رستہ بھی دکھاتا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ اپنی ناؤ کو "میں" کے رستے پر لے چلے ہو مگر قدرتی ہیرے اس
سفر میں بھی آپ کی اصلاح کو سِرہانے موجود ہوتے ہیں اور آپ کے ناؤ کی
چَپُّو میں "میں" نامی دیمک دھکلانے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتے ہیں اور جب
ان کی بات نا ماننے کے باوجود بھی آپ کشتی سمیت اس گہرائی میں آپہنچتے ہو
جہاں زوال آپ کی منتظر ہوتی ہے اور "میں" کی دیمک آپ کے واپسی کے سامان(
چَپُّو) کو کھاجاتی ہے اور نا تو قدرتی ہیرے اس خوف زدہ منزل تک آپکی اصلاح
کو آپاتے ہیں تو تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ بھی
نہیں ہوتا اور جس کا خميازہ ہمیں بربادی کی صورت میں وصول کرنا پڑتا ہے۔ |