مولوی: کماکر کھانا

وہ ایک بڑا آفیسر ہے. سرکاری گاڑی بھی ہے. خوب پروٹوکول بھی انجوائے کرتا ہے. مولویوں کے خلاف بولنا ثواب سمجھتا ہے.ان کو دنیا کی ساری برائیاں اور سستی و کاہلی مولویوں میں نظر آتیں ہیں.

ایک دن مجھے کہنے لگا، آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں. آپ کما کر کھاتے ہیں ورنا تو مولوی حضرات زکواۃ، صدقات اور خیرات اور مقتدیوں کی دعوتوں کے چکر میں رہتے ہیں اور مدارس و مساجد سے ملنی والی تنخواہ اور عوام سے ملنے والے تحائف کا انتظار کرتے رہتے ہیں.

میں نے عرض کیا، جی واقعی میں کچھ کمانے کی کافی کوشش کرتا ہوں، چھوٹے چھوٹے کام کرتا ہوں تاکہ چار روپیہ کما سکوں لیکن اتنا نہیں کما پاتا کہ میری کمائی، میں اور میرے متعلقین کی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرسکے، اس لیے مجبوراً سرکاری نوکری کررہا ہوں.

وہ حیران ہوکر مجھ سے پوچھنے لگا کہ "کیا مطلب"؟

میں نے عرض کیا بھائی مجھے جو تنخواہ ملتی ہے وہ یہی عوام سے لی جانے والی جبری ٹیکس اور قومی خزانے سے ملتی ہے. اگر قوم کا بس چلے تو مجھے ملنی والی تنخواہ اور آپ کے زیر استعمال مہنگی ترین گاڑی اور اس کے اخراجات، پروٹوکول اور بھاری تنخواہ قطعاً نہیں دیتی. کیونکہ میری اور آپ کی کارگرگی صفر ہے. لوگوں کا بس چلے تو ہمارا گریبان پکڑے. دفاتر میں موجود کالے بھجنگوں کو تو روڈ میں گھسیٹے جو چھوٹے چھوٹے جائز کاموں کو بھی مہینوں تک لٹکائے رہتے ہیں. ہمارے کام اور کارکردگی کے مقابلے میں ملنی والی تنخواہ اور مراعات بہت زیادہ ہے جو قومی خزانے اور وصول شدہ جبری ٹیکس سے ادا کیے جاتے ہیں. عوام چاہیے نہ چاہیے سرکار کئی مدوں میں ٹیکس وصول کرلیتی ہے. عوام چاہیے نہ چاہیے ہمیں تنخواہ ملتی ہے اور آپ تو گاڑیاں اور پروٹوکول الگ انجوائے کرتے. اور پھر ہاتھ کی صفائی کا تو کیا کہنے.

یہاں تک مولوی کی بات ہے تو لوگ خوشی خوشی اپنی زکوٰۃ، خیرات اور صدقات مولوی اور مدارس کے پاس جمع کرواتے ہیں اور ان کو ان کے کام کے حساب سے تنخواہ یا زکوٰۃ و غیرہ مل جاتی ہے. یہ عزت، مرتبہ ومقام، صدقہ، عطیہ، زکواۃ اور خیرات وغیرہ، سب کچھ لوگ خوشی خوشی عطا کرتے ہیں بلکہ خود پہنچا دیتے ہیں، مولوی کے جیب میں ڈال دیتے ہیں اور مدارس کے دفتر میں خود جمع کروا لیتے ہیں. جبکہ ہم سرکاری ملازم لوگ، لوگوں کے نہ چاہنے کے باوجود بھی تنخواہ لے لیتے ہیں اور آپ جیسے آفیسران تو اپنے کام سے ہزاروں گناہ زیادہ تنخواہ اور مراعات کی مد میں، قوم اور قومی خزانے پر بوجھ ہیں. دیکھیں نا میں تین چار پریڈ پڑھا کر لاکھوں روپیہ تنخواہ لیتا جبکہ مدرسے کا مولوی مشکل مشکل سات اٹھ کتب پڑھا کر اور مسجد کا مولوی پانچ وقت کی نمازیں ، جمعہ، جنازہ، درس قرآن ، مسائل اور پھر بچوں کو پڑھا کر بھی چند ہزار تنخواہ لیتا ہے. اصولی طور پر وہ کما کر کھاتا ہے. ہم کما کر کھانے کی ایکٹنگ کرتے ہیں.
پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی.

احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383415 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More