شکیل شاہ زور کے پچھلے خانے میں مِل سے تازہ نکلے کورے
کپڑے کے ڈھیر پر ایڑھی کو گھٹنے کی اُبھری ہوئی ہڈی میں پھنسایا ہوا، لیٹا
ہوا تھا۔ سوچ میں اس طرز سے گم کہ دنیا وما فیھا سے بےخبر خود کو کسی بوجھ
تلے دبتا محسوس کر رہا تھا۔ لیکن کہیں اس بوجھ تلے موجود کسی نازک سے سہارے
کی جھوٹی سی تسلی بھی تھی۔ دماغ میں سارے دن کی کارگزاری کسی ڈراؤنی فلم کی
ماند جو وی-سی-آر پر چل رہی ہو کبھی آتی اور کبھی چلی جاتی۔ مگر ایک جھوٹی
تسلی بھی کہیں نہ کہیں تھی جو ایک سوکھی ٹہنی کا کردار ادا کر رہی تھی۔
گاڑی منزل پر پہنچی، شکیل نے سامان اتارا اور اپنا معاوضہ طلب کرنے مالک کے
دفتر آگیا۔ اس بار معمول سے کچھ زیادہ معاوضہ ملنے پر شکیل نے حیرانی کے
عالم میں مالک سے نظریں ملائیں، مالک نے کہا کہ ہمارا کام مکمل ہو گیا ہے
آئندہ کے لئے اور ضرورت نہیں. یہ الفاظ نکلنے ہی تھے کی وہ جھوٹا سہارا بھی
چھوٹ گیا۔ اور شکیل کسی آوارہ کاغذ کی طرح جسے ہوا کسی بھی اور لے جائے
بھٹکتا بھٹکتا گھر کی دہلیز پار کرتا ہے۔ بیوی بچوں کو سارا قصہ سناتا ہے
اور گھر میں ایک نفرت کا ساماں ہو جاتا ہے بیوی کی جانب سے طنعے جب سے تیرے
ساتھ جڑی ہوں ایک پل سُکھ کا نہیں پایا بچے بھی کوستے ہوئے ماں کے ساتھ چل
دیے۔ شکیل کمرے میں بیٹھا کبھی پانی کے گلاس کو دیکھ رہا ہے اور کبھی موم
بتی کی بل کھاتی ہوئی لو کو۔۔۔۔ |