آؤ مل جائیں گلے ہم لوگ عید الفطر میں

رضوان احمد فاروقی
دنیاکی ہرقوم کسی نہ کسی دن خوشی کے نغمے اورمسرت کے ترانے سناتی ہے۔ اسلام چونکہ دین فطر ت ہے اس لئے اس نے انسانی نفسیات کامکمل خیال رکھا اوراپنے ماننے والوںکو جشن مسرت وشادمانی کے طورپر تحفہ عید بخشا۔ دراصل یہ امت محمدیہ کو 30روزوں کاانعام ہے۔ اجتماعی خوشی کایہ نادر موقع ہمیں سال بھر کے بعد میسر آتاہے ۔ مگر خوشی کے ان لمحات میں ہمیں اپنے پڑوسیوں، غریب اقربا اوربرادران وطن کو نظرانداز نہیں کرناچاہئے بلکہ عید کی مسرتوں کو اس طرح عام کرناچاہئے کہ اختلافات کی تمام دیواریں منہدم ہوجائیں۔ نفاق وتفریق کاخاتمہ ہو، بغض وکینہ اورحسدکی لعنتوںسے نجات ملے۔ یگانگت اوریکجہتی کی فضائے خوشگوار قائم ہو۔ ایسا تبھی ہوگا جب کردار نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ کی نظروں میں ہمہ وقت رہے
غم کے ماروں کو کلیجے سے لگاتے تھے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
اس طرح عید کا تیوہار مناتے تھے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
رفعت شیداصدیقی

نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم رحمت کاہرعمل ہمارے لئے مفید ہے توپھر کیوںنہ ہم نمازِ دوگانہ اداکرنے کے بعد دوسرے راستے سے گھروں کوواپس ہوکر ایک سنت کوزندہ کریں؟
عید کی صبح کا دوگانہ اداکرنے کے بعد
دوسری راہ سے گھر لوٹ کے جاتے تھے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

شاعر کے اس شعرمیں ایک خوبصورت پیغام ہے۔

بانٹنے عید کی خوشیوں کے تحائف خود بھی
اپنے احباب کے گھر عید میں جاتے تھے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

مسلمانوں کی عام غربت اوررؤسائے جہاں کی حد سے بڑھی بے حسی نے شاعر کے اس خیال کوتقویت بخشی ہے
عید کے خوف نے روزوں کامزہ چھین لیا
مفلسی میں یہ مہینہ بھی برالگتاہے
منوررانا

دنیا کاواحد مذہب اسلام ہے جس نے ملت کی اقتصادی بدحالی کے مکمل خاتمہ کے لئے زکوٰة جیسا مستحکم نظام دیا۔مگر افسوس کہ اس پر خود مسلمان عمل پیرا نہیں ہے بلکہ زکوٰة نکالنے اوربٹورنے کے جوادارے قائم ہوگئے ہیں وہاں بھی ہماری زکوٰة پوری طرح محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں قرآنی احکام کوسمجھ کرہی زکوٰة اداکرناچاہئے۔ نہ کہ آنکھ بند کرکے مخصوص شکل وصورت کے حاجت مندوںکو دے کر حقیقی مستحقین کاحق ماراجائے؟ آج اجتماعی نظام زکوٰة کے فلسفے کوسمجھ کر جگہ جگہ بیت المال کے قیام کی ضرورت ہے۔ اس نسخہ کیمیا پرعمل پیراہوکر ملت کی بدحالی کوخوشحالی میں تبدیل کیاجاسکتاہے اورپھر کوئی شاعر یہ کہنے پرمجبور نہ ہوگا
کل اگر عید کادن ہوگاتوکیا پہنیں گے
چاند سے کہہ دو کہ تیار نہیں ہیں ہم لوگ
معراج فیض آبادی

ڈاکٹرحضور نواب کاپیغام ہے

اختلافات کی دیوار گرا دو یارو
عید کالطف ملے گا بخدا عید کے دن

شاعر چاہتاہے کہ ہرطرف اخوت ومحبت کے دیئے روشن ہوں اورپوری فضا نور بداماں ہوجائے۔ ہندومسلمان باہم گلے ملیں۔شیرشکر ہوکر عید منائیں،بھائی چارے کی خوشگوار فضا پھر سے قائم ہو اورنماز عیدکی ادائیگی پرہرمسلمان کے لب پر یہی دعا ہو کہ اللہ مسلمانوں کو پھر سے توقیر عطا کردے۔
ہرطرف پیار، محبت کی فضا روشن ہے
کس قدر نوربداماں ہے فضا عید کے دن
ہرمسلماں کو خدا صاحبِ توقیر کرے
ہرنمازی نے یہ مانگی ہے دعا عید کے دن
شہرمیں ہندو مسلمان گلے ملتے ہیں
بھائی چارے کی کچھ ایسی ہے فضا عیدکے دن
ڈاکٹر حضور نواب

عید کاپیغام اخلاص وایثار اورامن وآشتی ہے۔عید فاصلوں کو قربتوںمیں بدلتی ہے۔اسی لئے شاعر پراعتمادلہجہ میں گویاہے
دلوںمیں پیار کاجذبہ جگانے آئی ہے
یہ عید بچھڑے ہووں کومنانے آئی ہے
بشیر فاروقی

نوجوان شاعر سلیم تابش نے دومصرعوںمیں عید کے پیغام کو یوںبیان کیاہے
بھول کر سب تلخیاں لگ جائیے آکر گلے
ساری دنیا کے لئے یہ عید کاپیغام ہے

آنجہانی کرشن بہاری نور کے شاگرد خاص حامد اللہ قمر لکھنوی نے اپنے خیالات کو یوں لباس شعر عطا کیا۔
گلے ملئے کہ رسم عید ہی ہے عید کاتحفہ
کوئی بھی آج کے دن فاصلہ رکھ کرنہیں ملتا
٭٭٭٭
شیخ جی کو بھی شریک جام ہوناچاہئے
عید کادن ہے مسرت عام ہوناچاہئے

قاری محمد اسحاق سہارنپوری نے اپنی مختصرسی نظم میں جن سوالات کواٹھایا ہے وہ واقعی لمحہ فکریہ ہیں۔
آج کے دن بھی ہے جن پر بارشِ ظلم وستم
دل پہ پتھر رکھ کے ان افغانیوں کی عید دیکھ
عالم اسلام پرپھرڈال اک گہری نظر
خون میں ڈوبی ہوئی ”اسلامیوں“کی عیددیکھ

بات فلسطینی مجاہدین کی ہو، عراقی جانبازوں کی یافولاد صفت افغانوں کی۔ہرجگہ مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ ہے۔خون مسلم سے زمین سرخ ہوچکی ہے۔عربوں کی نااہلی،امریکہ نوازی اوراقتدار کی چاہ نے مسلم حکومتوں کوپنجہ یہود کاآلہ کار بننے پر مجبور کردیاہے۔ اورجومسلم حکمراں آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں۔ صیہونی طاقتوں کے آگے سرخم تسلیم نہیں کرتے ان کے وجود کو ختم کردیاجاتاہے۔شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار کو اسی تناظرمیںدیکھا جاناچاہئے
مست ہیں حالت پے اپنی بے خبر افراد قوم
بے ضمیری کا مرقع بن چکے ہیںحکمراں
اے ہلال عید آ، یوں خون کے آنسو بہا
جس سے بدلے اہل دیں کی بے حسی کی یہ فضا
ہرمسلماں کو میسر دولتِ احساس ہو
سب کو ناموس محمد کی وفا کاپاس ہو

کاش ہمارے حکمراں بے ضمیری کے دلدل اوربے حسی کے دائروںسے نکلیں۔ بے حسی ختم ہو اورملت مسلمہ کا ہرفرد غفلت سے بےدار ہوجائے۔احساس کی دولت میسر آجائے اورناموس محمدکی وفا ہرحال میں مقدم ہو توعید واقعی عید بن سکتی ہے۔ مجیب بستوی صاحب کے دعائیہ اشعار کیوںنہ لکھے جائیں۔
دائمی خوشیوںمیں روز وشب گزرتے ہی رہیں
یوں خدا ہو مذہب اسلام کے شعراءکی عید
ہو سوئیوں میں حلاوت اتحادی کام کی
اور دوگانے میںحاصل ہو ہمیں صلحاءکی عید

ڈاکٹر محبوب راہی کے اشعار میں ہمیں ایمان ویقین کی چمک اورصداقت کی خوشبو نظرآئی۔
فضاﺅں میں بہارِشادمانی رقص فرماہے
دلوںمیں آرزوﺅں کی جوانی رقص فرما ہے
گلِ راحت کھل اٹھے ہیں مصائب کے ببولوںمیں
ہے رعنائی غضب کی آج ان پژمردہ پھولوںمیں

مگر

یہ خوشیاں توہیں راتوں کو عبادت کرنے والوں کی
وظائف پڑھنے والوں کی،تلاوت کرنے والوں کی
٭٭٭
سبھی کے واسطے ہیں کیایہ سب انمول سوغاتیں
نئے ملبوس، شیریں دعوتیں، باہم ملاقاتیں
یہ ساری نعمتیں ان کے لئے تو ہو نہیں سکتیں
ادائے فرض وسنت میں جنہوں نے غفلتیں برتیں
اپنی بات رفعت شیداصدیقی کے اس شعر پر تمام کرتاہوں
امن ویکجہتی کے خاطر نفرتوں کوبھول کر
آﺅ مل جائیں گلے ہم لوگ عید الفطر میں
Yosra
About the Author: Yosra Read More Articles by Yosra: 5 Articles with 3901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.