دسویں صدی عیسوی میں جب بغداد کے خلفاءکی
فوجی قوت ماند پڑنے لگی تو وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے طول واطراف میں خود
مختار ریاستیں جنم لینے لگیں۔اسی عرصئہ میں سلطنت ِسامانیہ کا قیام عمل میں
آیا۔خود مختار سامانیہ ریاست کے پانچویں سلطان عبدالمالک کے پاس ایک
الپتگین نامی غلام تھا۔جو بادشاہِ وقت کو بھان متی کے کرتب دکھا کر اُس کا
دل بہلایا کرتا تھا۔لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔لہذا اس ترک غلام کی
ذہانت نے عبدالمالک بن نوح کو کافی متاثر کیا۔جس بناءپر سلطان نے اُسے
درباری عہدے سے نوازا۔اپنی قابلیت اور وفاداری کے بل بوتے پر سبکتگین ترقی
کرتا ہوا خراسان کا گورنر بن گیا۔اسے دربار میں اس قدر عزت کی نگاہ سے
دیکھا جاتا تھا کہ عبدالمالک کی رحلت کے بعد درباری امراءنے بذریعہ خط اس
سے پوچھا کہ تخت وتاج کسے عطاءکیا جائے؟الپتگین نے کچھ وجوہات کی بناءپر
عبدالمالک کی تخت نشینی کے خلاف ووٹ دیا۔لیکن اس سے قبل کہ اس کی رائے
درباری امراءتک پہنچتی منصور پایہءتخت سنبھال چُکاتھا۔جب منصور کو اِس
مخالف خط کی خبر ہوئی تو اُس نے الپتگین کودربار میں حاضر ہونے کا حُکم
صادر کر دیا۔دربار میں حاضری اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف
تھی۔چُناچہ الپتگین 3ہزار کی سپاہ لے کر کوہ سلیمان کے وسطی علاقہ غزنی کے
مقام پر جا وارد ہوا۔اور ہرات‘سیستان اور بلخ کے علاقوں پر مشتمل ایک آزاد
ریاست کی بنیاد ڈالی۔مگر دو سال بعد 963عیسوی میں اس دارفانی سے کوچ کر
گیا۔اس کی موت کے بعد اس کے فرزند ابو اسحاق کی تاج پوشی عمل میں آئی۔لیکن
دو سال بعد وہ بھی فنا ہو گیا۔دو ترک غلام تخت نشیں ہوئے لیکن نظام ِ سلطنت
ڈگمگاتا گیا۔اس نازک موقع پر دربار کے امراءنے سلطانی کے جوہر پھانپتے ہوئے
اپنی دقیق رائے استعمال کی اور سبکتگین کواقتدار نواز دیا۔کچھ تاریخ دان
رقمطراز ہیں کہ سبکتگین درحقیقت ایران کے شاہی خانوادے کا شہزادہ تھا ۔جسے
کسی بے رحم نے سن بلوغت سے قبل اغوا ءکر کے بیچ ڈالا تھا۔جسے بالاآخر
الپتگین بادشاہ نے بخارا کے سوداگر ناصر سے خریدا ۔جو اپنی قابلیت کے عوض
فوج کا سپہ سالار بنا اور پھر الپتگین نے اپنی دختر بھی اُس کے نکاح میں دے
دی۔
جب سبکتگین بادشاہ بنا تو اُسوقت پنجاب پر راجہ جے پال کی حکمرانی تھی۔جس
کی ریاست کی حدود بٹھنڈہ سے لے کر دریائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی پشاور تک
تھی۔ جبکہ جے پال کا دارلحکومت لاہور تھا۔
شمال مغرب میں مسلمان سلطنت کے قیام نے جے پال کے اندر تعصب کی آگ جلادی ۔وہ
اس سلطنت کو مضبوط ہونے سے قبل ہی نیست ونابود کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔اسی
اثناءمیں اس نے ایک عظیم لشکرتیار کیااورپشاور اور کابل کے وسط میں لمغان
کے مقام پر جا ڈیرے ڈالے۔دوسری جانب سے سبکتگین فوج لے کرآیا اور دونوں
فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آگئیں۔جنگ کے دوران سبکتگین کے بیٹے محمود نے
اپنی شجاعت کا خُوب مظاہرہ کیا۔اس سے پہلے کے جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل
ہوتی قدرت نے اچانک برف برسادی۔سرد وتند ہوا کا طوفان نازل ہوا۔افغانیوں کو
اتنی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا کہ وہ برفانی تھے لیکن ہندوﺅں نے یہ عذاب
پہلے نہ دیکھاتھا۔جب لحاف اور رضائیاں نہ ملیں تو ان کے جسم اکڑ گئے۔ہزاروں
کی تعداد میں ہندو لشکر کے سپاہی سردی کی تاب نہ لاکر جان سے ہاتھ دھو
بیٹھے ۔جو بچ گئے اُن کے حوصلے پست ہو گئے۔
راجہ جے پال نے پریشانی کے عالم میں صلح کا پیام بھیجا۔سبکتگین نے مشاورت
کی تمام امراءنے صلح کی حمایت کی۔مگر محمود نے کہا کہ دشمن خود ہماری جانب
آیا ہے اس لیئے یہ بہتر نہ ہوگا کہ اُسے اس قابل چھوڑ دیا جائے کہ وہ پھر
لشکرجرار تیار کر کے ہمیں اذیت دے۔لیکن سبکتگین نے اپنے فرزند کو سمجھایا
کہ حریف کی کمزوری سے فائدہ حاصل کرنا مردوں کا کام نہیں۔آخر جے پال سے صلح
ہوگئی ۔تاوان جنگ مقرر ہوا۔راجہ سبکتگین کے آدمی لاہور لے گیا کہ وہاں جا
کر تاوان جنگ ادا کرے گا۔لیکن لاہور پہنچ کر برہمنوں نے اُسے بھڑکایا کہ
تاوان دینے میں ذلت ہے اور خراج دینے سے خوب بدنامی ہوگی۔راجہ نے ان کے
باتوں میں آکر تاوان دینے سے انکار کر دیا اور سبکتگین کے آدمیوں کو جیل
بھجوا دیا۔
جب سبکتگین کوجے پال کی وعدہ خلافی کی اطلاع ملی تواُس نے اپنے ساتھیوں کو
آزاد کروانے اور راجہ کی دوہری زبان کو سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔اور اس کے
سوا کوئی راہ بھی نہ تھی۔چناچہ مسلمان بادشاہ ہونے کے ناطے سبکتگین نے
اعلان جہاد کیا۔جری و باہمت جوان ہر کونے سے اُس کے لشکر میں آ شامل ہوئے
جنھیں لے کر سبکتگین غزنی سے نکل پڑا۔دوسری سمت جے پال کو جب اسلامی لشکر
کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دہلی ‘کالنجر‘قنوج اور اجمیر کے راجاﺅں سے یہ
کہہ کر امداد طلب کی کہ پنجاب ہندوستان کا دروازہ ہے۔اگر مسلمان اس پر قابض
ہوگئے تو پھر تمہیں بھی ایک دن اپنی ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔یہ وطن
کی لاج رکھنے کا لمحہ ہے۔جے پال کے اِس پُر جوش پیام نے راجوں کونرم کردیا
اور دھرم کا معاملہ بھی تھالہذا انھوں نے دل کھول کر مالی امداد کی اور
مشکل وقت میں فوج سمیت پہنچنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔راجہ ہندوستانی لشکر
لے کر اپنی سلطنت کی سرحد پشاور پر جا پہنچا اور سبکتگین کو روکا۔راجہ کے
پاس ایک لاکھ سے زائد لشکر تھاجبکہ سبکتگین کی فوج اس کا چوتھا حصہ بھی نہ
تھی۔ہندو بے جگر ی سے لڑے لیکن اللہ کو تکبر کو خاک میں ملانا تھا۔لہذا
غزنوی بہادروں کے ہاتھوں دشمن گاجر مولی کی مانند کٹنے لگا۔ٹڈی دل فوج
ہزارہا لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلی ۔قد آور بہادر اور رحمدل سبکتگین کی افواج
نے دریائے سندھ تک پیچھا کیا جس کے نتیجے میں موجودہ خیبرپختونخواہ تک کا
علاقہ سبکتگین کے قبضے میں آگیا جہاں وہ فوجی چھاﺅنی قائم کر کے غزنی لوٹ
گیا۔بیس سال حکومت کرنے کے بعد 997ءمیں سبکتگین انتقال کرگیا۔
سبکتگین کی وفات کے وقت محمود خراسان کے مرکز نیشاپور میں تھا۔جب کہ اس کا
چھوٹا بھائی اسماعیل غزنی میں موجود تھا۔اُس نے وقت سے فائدہ اُٹھا کر تخت
پر قبضہ جما لیا۔محمود نے اسے کہلوا بھیجا کہ اگر تمہاری عمر اور تجربہ اس
وسیع سلطنت کی ذمہ داریاں اُٹھانے کے قابل ہوتے تو مجھے تمہاری تاج پوشی پر
مُسرت ہوتی لیکن مجھے اہل خاندان اور مملکت کی فلاح اسی میں دکھائی دیتی ہے
کہ تم نقد ترکہ شریعت کے بموجب بانٹ کر غزنی کو میرے حوالے کر دو۔تمہارے
لیئے میں خراسان و بلخ کا علاقہ فتح کر دیتا ہوں۔
اسماعیل خوش آمدی امراءکی باتوں میں آ کر محمود کے قتل پر رضامند ہو
گیا۔محمود دربار سے ہر لمحہ باخبر رہتا تھا۔لہذا آخری حل کے پیش نظر فوج لے
کر اسماعیل کی جانب آیا۔جنگ کا میدان محمود کے ہاتھ رہا ‘اسماعیل کی
گرفتاری کے بعد محمود نے اُس سے اچھا سلوک کیا۔
24سال کی عمر میں محمود تخت نشین ہوا۔اُس نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔محمود
نے مرکزی اسلامی حکومت سے ناطہ جوڑنے کی غرض سے خلیفہءبغداد القادر بااللہ
سے اپنی حکومت کی توثیق چاہی۔القادر باللہ نے سند عطاءکر دی۔
محمود کے تخت پر جلوہ افروز ہونے کی اطلاع جب تخت لاہور کو ہوئی تو راجہ
پھر حسد کے حصار میں جلنے لگا۔سبکتگین سے شکست کے گھناﺅنے زخم کھانے کے بعد
ایک مرتبہ پھر یلغار کی تیاری کرنے لگا۔اُس کا خیال تھا کہ سبکتگین تو
تجربہ کار جرنیل تھا جس کی وجہ سے وہ قوت زیادہ ہونے کے باوجود پسپا
ہوا۔لیکن چونکہ محمود کا تجربہ ناکافی ہے اور وہ تخت و میدان میں ابھی نیا
ہے اس لیئے بازی اُسی کے ہاتھ آئے گی۔اپنا گم شدہ مقام اور کھویا ہوا علاقہ
واگزار کرانے کی غرض سے پشاور کی جانب پیش قدمی کی۔محمود بھی دس ہزار
جانثاروں کے ساتھ سامنے آگیا۔گھمسان کا رن پڑا ۔ہندو کافی تعداد میں کام
آئے اور جے پال گرفتار ہوا۔راجہ کا اسلامی سلطنت سے بغض منظر عام پر
آگیا۔دو مرتبہ سبکتگین پر حملہ اور تیسری دفعہ محمود کو زیر کر کے افغانیوں
کوبے آسرا و بے وطن کرنے کی نیت مسلمان بادشاہ کے لیئے نہایت حوصلہ شکن تھی
۔ایسے میں تاریخ گواہ ہے کہ فاتح مفتوخ کا نام و نشان مٹادیا کرتے تھے۔اور
خصوصًا راجہ کی بدعہدی اور خراج نہ دینا انتہائی مذموم اقدام تھے ۔اور ایسے
بدترین دشمن کے لیئے موت سے کم سزا تاج کی بقاءکےلئے خطرہ تھی لیکن اس سب
کے باوجود باپ کی اعلٰی تربیت اور دین فطرت کے انسان دوست اصول محمود کی
طبیعت پر غالب تھے ۔۔لہذا جب راجہ کے فرزند انند پال نے فدیہ و خراج کے عوض
باپ کی رہائی کے لیئے دست دراز کیا تو محمود نے جے پال کو آزاد کر دیا۔
جے پال سبکی کے کئی وار سہ چکا تھا۔بار بار کی شکست نے اسے کے اعصاب کو
کمزور کر دیا۔لیکن اُ س نے اپنی حیات کا خاتمہ بھی ایک چال پر کیا اور چتا
میں اس لیئے جل کر مر گیا کہ ہندو دھرم کے راجے اور اس کا بیٹا محمود و
اسلامی سلطنت پر سیخ پا ہوجاویں گے اورراجوں کے انتقام کی آگ میں اسلامی
سلطنت جل کر راکھ ہو جائے گی۔
جے پال کی خود کشی کے بعد انندپال لاہور کے تخت پر بیٹھا۔وہ خراج دینے کے
ساتھ ساتھ جنگی تیاریوں میں بھی مصروف رہا۔ہندو راجے بھی انندپال کے والد
کی اندوہناک موت سے متاثر ہو کر اپنی فوجیں تیار کرتے رہے۔بالاآخر
مالوہ‘گجرات‘اجین‘دہلی‘اجمیر‘متھرا اور گوالیار کی فوج ظفر موج کے ساتھ جے
پال کا بیٹا سرحد کی جانب بڑھا۔پشاور کے نزدیک حق وباطل کی فوجیں ٹکرا گئیں
۔چالیس روز تلک جنگ جاری رہی ۔راجپوت سپوت بے جگری سے لڑے ۔محمود کی سپاہ
قلیل تھی۔دشمن ڈٹ کر مقابلہ کر رہا تھا۔مختلف جنگی حربے آزمانے کے بعد بھی
جب دشمن کا زُور ٹوٹتا نظر نہ آیا تومحمود زمین پر قبلہ رخ ہو کر سجدہ ریز
ہو گیا۔عجز وانکساری اور نم رُخسار کے ساتھ بارگاہ رب العزت سے مدد طلب
کرتا رہا۔جب دل سنبھلا اور قوت محسوس ہوئی تو جذبہءشہادت میں سرشار ہو کر
اپنے زیر رکاب دستہ سمیت مخالفوں پر ٹوٹ پڑا۔مگر باطل افواج چند قدم ہٹ کر
پھر سنبھل گئی۔اسی اثناءمیں سلطان محمود کی نگاہ راجہ انندپال پر پڑی جو
ہاتھی پر سوار تھا۔تیراندازوں نے سلطان کے حُکم پر نیزہ ہاتھی کی آنکھ کی
میں گاڑ دیا۔ہاتھی درد سے چلایا اور اپنی ہی فوج کو روندتا ہو پیچھے کی
جانب دوڑا ۔ہندی افواج نے سمجھا راجہ بھاگ رہاہے۔یہ منظر ان کے بلند حوصلے
زمین بوس کرنے کیلئے کافی تھالہذا وہ بھی دُم دبا کر بھاگ نکلے۔
انند پال کانگڑہ(نگرکوٹ)کے قلعہ میں جا کر پناہ گزین ہوا۔محمود بھی پیچھا
کرتا ہوا 1010میںقلعہ تک جا پہنچا۔قلعے کے اطراف میں خندق تھی اور اس کی
عمارت بھی سنگلاخ و سانپ کی چال کی مانند بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں کے بیچ تھی
۔اسی واسطے یہ محفوظ ترین قلعہ تصور کیا جاتا تھا۔مگر حق کے جانبازوں کے
سامنے اس کی کچھ پیش نہ گئی۔اور مجاہدین اسلام کمندیں ڈال کر فصیل پر چڑھ
گئے۔انند پال اور نگر کوٹ کا حاکم بھاگ کھڑے ہوئے۔اسلامی لشکر 8سو کلو گرام
سونا اور چاندی لے کر مرکز کی جانب چل پڑے۔اسکے بعد سلطان نے ان افراد کا
محاصرہ کیا جنہوں نے انند پال کا ساتھ دیا تھا۔ 1010میں ملتان کے حاکم
ابوالفتح کو شکست دی اور غزنی کے قلعے میں نظر بند کردیا۔پھر 1018میں متھرا
کے راجہ کو شکست دی۔اس کے بعد قنوج پر حملہ کیا جس کا ذکر ہم آخر میں کریں
گے۔1021میں انندپال کے فرزند کو راولپنڈی کے قریب شکست دی جس کے بعد لاہور
پر قبضہ ہو گیا اور وہاں اپنے غلام ایاز کو گورنری سونپ کر پلٹ گیا۔ان تمام
علاقوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنے کے بعد سلطان نے سومنات کے مندر کو فتح
کرنے کا ارادہ کیا۔یہ مندر گجرات کے علاقہ کاٹھیاوار میں تھا۔یہ ہندوﺅں
کیلئے مقدس مقام تھا۔ ہزار پجاری ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔دس ہزار دیہاتوں
کی آمدنی سومنات کے نام تھی۔محمود بہاولپور کے بے آب وگیاہ صحراسے ہوتا ہوا
اجمیر پہنچا۔وہاں کا راجہ دوڑ گیا۔پھر انہلواڑہ پہنچا تو وہاں کے راجہ بھیم
دیو نے بھی بھاگ جانے ہی میں بہتری سمجھی۔اب محمود سومنات کی جانب بڑھا جو
اس کے خلاف سازشوں کا گڑھ تھا۔یہاں محمود کے خلاف حکمت عملی ترتیب دی جاتی
اور پھر اسے ہند میں حکم نامے کی طرح پھیلا دیا جاتا۔راجوں کیلئے یہ حکم
نامہ قانون کی حیثیت رکھتا تھا۔محمود سے پہلے مندر کی محافظی فوج نے جنگ
لڑی ۔اور پھر آئے روز نئی کمک سے نبرد آزما ہونا پڑا۔تیسرے روز فاتح کی
حیثیت سے مندر میں داخل ہوا۔پجاریوں نے ہیرے جوہرات پیش کئے مگر محمود نے
کہا میں بت فروش کے بجائے بت شکن کہلانا چاہتا ہوں۔اور پھر فولاد کے راڈ سے
بت کو پاش پاش کر دیا۔اسکے بعد شمالی ہند میں محمود کے خلاف سازشیں دم توڑ
گئیں۔
اب آخر میں فتح قنوج کا ذکر کرتے چلیں ۔قنوج کے راجے نے بھی محمود کے خلاف
انند پال کی مدد کی تھی۔اسی وجہ سے محمود نے 1019میں قنوج پر حملہ
کیا۔محمود کے پاس فقط ایک لاکھ سپاہی تھے۔جبکہ راجہ کے پاس تیس ہزار سوار
اور پانچ لاکھ پیدل فوج تھی۔محمود غزنوی کچھ لمحات کیلئے اضطراب کی حالت
میں گھر گیا۔پیشانی پر پریشانی کی شکنیں پڑ گئیں۔مگر مرد مجاہد رات کی
تاریکی میں کائنات کے مالک کے سامنے جھولی پھیلا کرگڑگڑاتا رہا۔عزم صمیم
تھا‘الفاظ پرتاثیر تھے۔بقول شاعر
دل سے جو دعانکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
صبح جب ہوئی تو اللہ کی قدرت جلوہ گر ہوئی۔شہر سنسان ہو چکاتھا۔مکانات خالی
ہو چکے تھے۔راجہ چند فوجیوں کے ہمراہ آرہاتھا۔محمود نے سجدہ شکر ادا کیا
۔پھر راجہ کے سینے سے لگ گیا۔تخت راجا کو دیکر پلٹ گیا۔
آج جب اپنی ہی ریاست کے طول عرض میں سازشیں پنپ رہی ہیں۔تو ایسا لگتا ہے
سومنات پھر جاگ اُٹھا ہے۔جب جُھوٹ و بدعہدی کا ذکر زور پکڑتا ہے تو یوں
محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے ہاں کوئی جے پال ہو اور برہمن اسے ورغلارہے
ہوں۔جب بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسماعیل خود غرض
درباریوں کی باتوں کو نسخہ کیمیاسمجھ کر محمود کے قتل اور اسلامی ریاست کو
انتشار کے حوالے کرنے پر رضامند ہو چکا ہے۔آج مفتوح ہے لیکن کوئی مہربان
سبکتگین یا اس کا فززند محمود نہیںموجود۔ اعداد وشمار کے مطابق کراچی کی
آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ ہے۔جس میں 32ہزار پولیس اہلکار ہیں ۔اور 112تھانے
ہیں۔اور اس سب کے باوجود 24جولائی 2011 سے 24اگست تک 306قتل ہو چکے ہیں ۔جن
میں سے سترہ بوری بند لاشیں اور آٹھ افراد کے گلے کٹے ہوئے تھے۔آج پھر
سجدائے قنوج کی ضرورت ہے۔ اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ کراچی کا چپہ چپہ
اہل کراچی کے خُون سے رنگین ہو چُکا ہے۔ آج جب آزردہ مائیں‘بے آسرا بچے اور
لُٹی ہوئی دلہنیں اپنی ہی وطن میں سُرخ عید منارہے ہیں تو آج پھر کسی محمود
غزنوی کی اشد ضرورت ہے۔جو کسی لالچ میں آئے بغیر سازشوں کے مرقع کا قلع قمع
کر دے اور ارض وطن کو جے پال‘انندپال کے نقش قدم پر چلنے والے اور برہمن کے
اشارے پر ناچنے والے سفاک ‘بدعہد‘اور انسانیت کے دشمنوں سے نجات دلائے۔اور
ابوالفتح کو اسلام سے غداری کی سزا کے طور پر نظر بند کردے۔ |