اردو پھر لاوارث ٹھہری!
(Ata ur rehman chohan, Islamabad)
ایک سال (۲۰۲۲)مزید بیت گیا اور قومی زبان اردو کو
پاکستان میں عزت و شنوائی نہ ملی۔ ریاستی اور عوامی سطح پر انگریزی کے قدم
مضبوط تر اور قومی زبان کو قومی دھارے سے باہر رکھنے کے لیے منظم سازش جاری
رہی۔ دستوری منشاء اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور عوام کے مسلسل مطالبے کے
باوجود حکمرانوں اور بیوروکریسی قومی زبان اردو کو نافذ نہیں ہونے دیا۔ اس
سے بھی زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں، قانون دانوں،
علماء کرام، کالم نگاروں، صحافیوں، اساتذہ اور شعراء و ادیبوں میں سے کسی
نے قومی زبان اردو کے ساتھ حکومتی رویئے پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا
بلکہ خاموش رہ کر معاملے کی تائید کرتے رہے۔
دستور پاکستان کے مطابق اگست ۱۹۸۸ کے بعد ملک میں انگریزی کا چلن خلاف
قانون ہے اور اسی روز سے ملک میں قومی زبان اردو کا نفاذ لازم تھا۔ جس کی
مزید تاکید عدالت عظمیٰ کے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کے فیصلے میں کی گئی تھی۔ چونتیس
سال سے مسلسل حکمران دستور شکنی کا ارتکاب کررہے ہیں لیکن نہ صحافی اس پر
آواز اٹھاتے ہیں نہ سیاستدان اور نہ قانون دانوں کو کہیں لاقانونیت نظر
آرہی ہے۔ ہماری عدلیہ اس سارے عمل کی سرپرستی کررہی ہے۔ چھ سالوں سے عدالتی
حکم پر عمل درآمد کے لیے دائر مقدمات کمال مہارت سے اعلی عدلیہ کے جج حضرات
فائلوں میں تڑپا رہے ہیں۔
انگریزی نہ صرف دفتری زبان ہے بلکہ عدالتی اور بلدیاتی زبان کے طور پر بھی
جبرا مسلط ہے۔ عوام سے ریاست اس زبان میں مخاطب ہوتی ہے جو ننانوے فیصد
افراد نہیں سمجھتے۔ انگریزی کے بل بوتے پر ایک فیصد اشرافیہ نے زمام کار
اپنے پاس گروی رکھی ہوئی ہے اور اسے اپنی نسلوں کو منتقل کرنے کے لیے وہ
اردو کو نہ نصاب تعلیم بنارہے ہیں اور نہ سرکاری زبان کا درجہ دینے پر تیار
ہیں۔
عوامی میڈیا (سوشل میڈیا) نفاذ قومی زبان کے مطالبات سے بھرا پڑا ہے۔ گلی
کوچوں سے نفاذ قومی زبان کے نعرے گونج رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کو مسلسل
یاداشتیں پیش کی جارہی ہیں لیکن کہیں سے شنوائی نہیں ہو رہی۔
انگریزی تسلط سے قوم دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے اور ان کے درمیان حاکم
اور محکوم کی خلیج روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، جو ہماری قومی یک جہتی کے
لیے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح حکمرانوں اور نوکر شاہی کی طرف سے
دستور اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو رد کرنے سے عوام میں لاقانونیت کو فروغ
دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔
نفاذ قومی زبان کے لیے کوشش کرنے والے افراد ہر طرف سے راستے بند ہونے کے
باوجود پر امید ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمارے ملک میں دستور اور عدالتی
فیصلوں پر عمل درآمد کا چلن ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ پورے اخلاص سے سرگرم عمل ہیں
۔ عقل مند طبقے کی طرف سے ان پر آوازے بھی کسے جاتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن
بنانے کی رٹ چھوڑ دو۔
قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت تو سب پر عیاں ہے لیکن قانون شکنی اور توہین
عدالت پر عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور ارباب دانش کی خاموشی یہ تاثر دے رہی ہے
کہ ہمارے ملک میں نہ کوئی دستور ہے، نہ عدلیہ اور نہ اصول اور قاعدہ بلکہ
طبقہ اشرافیہ جو چاہے کرتی پھرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاقانونیت کی سیاہ رات
کب تک جاری رہے گی۔ ۲۰۲۲ کو رخصت کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ اگلا سال
قومی زبان اردو کے نفاذ کا ہوسکتا ہے۔ آئیے سب مل کر اس روشن صبح کے لیے
اپنی مثبت سرگرمیاں جاری رکھیں ۔
|
|