”با با جی بس ایک بار میرا کام
کر دیں ،میں ساری عمر آپ کے پاﺅں دھو دھو پیونگا۔۔۔!!“تنگ وتارک گلی سے
نکلنے کے بعد سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹا سا آستانہ نما کمرہ تھا جہاں ایک
آدمی بڑی عاجزی و انکساری سے ،بابا جی کی عقیدت میں اپنی گردن خم کئے متعرض
تھا۔کمرے میں اور بھی لوگ بابا کی قدم بوسی کے منتظر بیٹھے ہوئے تھے،کمرے
میں اگر بتیاں جل رہی تھیں جن کی خوشبو اور کمرے میں دھیمی دھیمی تاریکی مل
کر ایک خا ص ماحول کا باعث بن رہی تھیں یوں لگتا تھا کہ یہ خاص طریق پر
شعوری کوشش سے پیدا کیا گیا ہے،فرش پر سفیدچادر بچھی ہوئی تھی اور درو
دیوار پر بھی سفیدی کی وجہ سے کمرہ روحانی ماحول پیدا کرنے میں کسی حد تک
کامیاب تھا۔۔۔ارد گرد سے نظر ہٹی تو با با جی کی طرف اٹھی،با با جی اپنی
وضع قطع سے بابے کم بابا بننے کے شوقین زیادہ دکھائی دیئے،ہٹے کٹے آدمی تھے
شانوں تک زلفیں بڑھی ہوئیں تھیں سر پر ٹوپی ،سفید لباس اور ہاتھ میں بڑے
دانوں والی تسبیح ۔۔۔۔۔۔۔۔ساتھ میں تین چار چیلے بھی گردن گھما گھما کر
اللہ ،اللہ کر رہے تھے یہ سب کوئی extraordinary نہیں تھا ،جتنے بھی با بے
دیکھے ہیں ایسے ہی ہوتے ہیں ایسے نہیں تو ملتے جلتے ہی ہوتے ہیں،سفید بے
داغ لباس۔سر پر ٹوپی اور ہا تھ میں تسبح چہرے پر مصنوعی جلال اور آنکھوں
میں دہشت لئے ہوئے گویا مخلوق ِخدا کو ڈرانا ہی ان کا مسلک ہواور یہ سب
سادہ لوح ،کم زور اعتقاد اور توہم پرستوں کے لیے کافی کشش کا باعث ہوتا ہے
وہ سب اپنی تمام مشکلوں ۔مصیبتوں ،پریشانیوں سے نجات کے لئے ان با بوں سے
رجوع کرتے ہیں کسی کو بےروزگاری سے چھٹکا را چاہیے تو کسی کو من پسند محبوب
درکار ہے،کوئی ناخلف اولاد سے عاجز ہے تو کوئی بے اولادی کا دکھڑا لیے ان
کے آگے سرنگوں ہوئی کھڑی ہے الغرض دنیاوی خواہشات کے حصول کے لیے کوئی
درگاہوں پر جا رہا ہے تو کوئی پیروں فقیروں اور عا ملوں کے آستانوں کو تیل
فراہم کرتا نظر آتا ہے پیروں ،فقیروں کے پاس جانے والوں میں اگرچہ مرد عورت
دونوں شامل ہیں لیکن زیادہ تعداد عورتوں کی ہے اور ان میں زیادہ ترعورتیں
ایسی جگہوں پر اولاد کے لیے جاتی ہیں جہاں ناصرف وہ اپنا پیسہ ضائع کرتی
ہیں بلکہ ان میں سے اکثریت اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتیں ہیں جب وہ
چیختیں اور چلاتیں ہیں تو خفیہ کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر ہمیشہ کے لیے
ان کی آواز دبا دیتی ہیں اور ہوس پرستوں کا دھندا بنا رُکے چلتا رہتا ہے
مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس شیطانی فعل میں جعلی
پیروں،عاملوں کے ساتھ ہم اور ہما را معاشرہ بھی برابر کا شریک ہے ہمارے
معاشرے میں عورت کا بے اولاد ہونا بہت بڑا جرم ہے حالا نکہ اللہ کبھی بندے
کو مال اور اولاد دے کر آزماتا ہے تو کبھی نا دے کر،اور اسی میں حکمت ہوتی
ہے چونکہ ہم انسان اس چھپی حکمت سے آگہی نہیں رکھتے تبھی ہمارے معاشرے میں
پیروں ،فقیروں کے ہا تھوں ان گنت عورتیں اپنی عصمتوں کو لوٹا چکیں ہیں اور
شعور نا ہونے کی وجہ سے یہ گھناﺅنا کام جا ری و ساری ہے ابھی چند دن بیشتر
فیس بکfacebook پر ایک جعلی پیر کی وڈیو جاری ہوئی تھی جو تین سا ل تک ایک
ہی علاقے میں اولاد کے جھانسے میں عورتوں کی آبروریزی جیساغلیظ شیطانی اور
قبیح فعل کرتا رہا کسی کو خبر نہیں ہوئی کی آستانے کی ٓڑ میں کیا ہو رہا ہے
اور وہ تین سو عورتوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا چکا تھا۔۔۔۔۔۔!!اس جسے کیس
سامنے آتے رہتے ہیں لیکن کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ کیا چیز ہے جو
انھیں خدا کے بجائے ،خدا کی مخلوق کے آگے لے جا رہی ہے ۔۔!!ہمارے ایمان ،اپنے
رب پر یقین و بھر وسہ کہاں گیا۔۔۔؟؟اللہ رب العزت قرآن ِ پاک میں بار بار
کہتا ہے :”مجھے پکارو!میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا‘
ایک اور جگہ پر ارشادِپاک ہے:”میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں وہ
جب بھی پکارتا ہے“
میں ہرگز پیری فقیری کی نفی نہیں کرتی ،صوفی ،والی اور درویش اللہ کے خاص
بندے ہوتے ہیں اسی خاص۔ نسبت سے میرے لیے تعظیم کے قابل ہیں اور مجھ جیسے
گناہ گاروں کے لیے خضرِراہ ہیں میں خود دل سے ان کی عقیدت مند ہوں۔لیکن
مجھے بہت افسوس ہے کہ اب لوگوں کی اکثریت نے اس کام کو کمائی کا ذریعہ بنا
لیا ہے” اصل “کو چھوڑ کر ،”اسم “کے ہو کر رہ گئے ہیںبابوں کا بھیس بدل کر
ہمارے ایمانوں سے کھیل رہے ہیں اور اس مقدس کام کی آڑ میں بہتوں نے شیطانی
اور اخلاق سوز گھناﺅنا کام شروع کر رکھا ہے رہی سہی کسر بنگالی عاملوں اور
کالے جادوکی کاٹ کا دعویٰ کرنے والے ا سکالرزنے پوری کر دی ہے یہ لا ہور ،کراچی
سمیت کم وبیش ہر شہر کی چھوٹی بڑی شاہراہوں پر بکثرت بیٹھے مل جا تے ۔۔۔۔۔یہ
سب اسلام اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کے با وجود ،ایک اسلامی ملک میں
نا سور کی طرح پھیل چکا ہے اور ہر طبقہ اس نا سور کے ہاتھوں اپنا ایمان و
ایقان کو تباہ کر رہا ہے۔۔۔ بیرونِ ملک جا نے کا ٹکٹ ،لاٹریوں ،بانڈز کے
لکی نمبرز کے لئے شرطیہ رجوع کریں،کام نہ ہونے کی صورت میں پیسے واپس اور
اس جیسے ان گنت دعووں سے مزین اشتہارات ہمارے اچھے اخبارات میں بھی شائع
ہوتے ہیں اور یہی وہ ذریعہ ہے جس کی وجہ سے ان با بوں ،عاملوں کا شیطانی
کاروبار پھل پھول رہا ہے۔۔۔پرنٹ میڈیا کواپنے تھوڑے سے ذاتی فا ئدے کے لیے
معاشرے میں گمراہ کُن اور شیطانی کام کو راستہ فراہم نہیں کرنا چاہیے
عاملوں ،بنگا لی اسکالروں وغیرہ کا پروپنگنڈہ کرنے والے اخبارات پر حکومت
کوبھی سخت جرمانہ لگانا چاہیے ۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں
تو سمجھتے کیوں نہیں۔۔۔!!اس کتاب سے زیادہ رہنما کوئی اور نہیں۔۔۔اور اللہ
کے سوا ہماری دستگیری کی طاقت بھی کسی کے پا س نہیں۔۔۔خدارا اپنی دستگیری
کو کھوکھلے سہارے مت ڈھونڈو۔۔!!لوگ کہتے ہیں ہم گناہ گار ہیں ہماری دُعا
قبول نہیں ہوتی،میں کہتی ہوں اللہ کو استحقاق و یقین سے پکار کے دیکھو وہ
سب کی سنتا ہے اور جو چیز یں ہم میں اور ہمارے اللہ میں دُوری پیدا کرتی ہو
تو اُن کا چھوڑدینا ہی بہتر ہے،اپنے نفس کی غلامی سے نجات کے لیے اللہ سے
دوستی کر لجئے ۔نفس ،اللہ اور بندے کی دوستی سے بھاگتا ہے یا خود کو غلامی
دے دیتا ہے۔۔۔۔!! اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو!!
ختم شُد۔۔۔۔ |