نیا عیسوی سال آ گیا ہے ۔ وقت کی پِھرکی میں تغیر
ہے - جو کل تھا وہ آج نہیں ہے، جو آج ہے وہ آنے والے کل میں ہوگا کہ نہیں ،
کون جانتا ہے ؟ یہ سال جا رہا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل بہت اداس ہے
جیسے یہ جانے والا سال اپنے ساتھ میری بہت سی ادھوری خواہشات لے کر جا رہا
ہو ۔ میری بہت سی امیدیں جو اس سال سے وابستہ تھیں کہ اس سال پوری ہوں گی
اور نہ ہو سکیں ۔ وہ جو جو سوچا ہوا تھا اس سال کروں گا ابھی تک نا مکمل ہے
وہ تمام لوگ جو اس سال کے آغاز میں میرے ساتھ تھے ابھی مجھ سے بہت دور ہیں
کچھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا چکے ہیں کچھ کو ان کی مجبوریاں دور لے گئیں
اور کچھ کو انکی انایئں دور رہنے پر مجبور کر گئیں ۔ خیر حالات بدلتے رہے
زندگی ہے اتار چڑھاؤ اس میں آتے ہیں اور ہمارے اندر حوصلہ ہونا چاہیے حالات
کو جھیلنے کا ۔ کچھ روز پہلے میں ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ
پاکستان سے بہت سے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں اپنے بہتر مستقبل
کے لئے ۔ اسی سلسلے میں میرا ایک دوست کچھ روز پہلے ملک سے باہر جانے کی
تیاری میں تھا بقول اس کے پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ، دھوکہ ، فراڈ ، چوری
اور طرح طرح کے جرائم صرف پاکستان میں ہوتے ہیں یہاں انصاف ناپید ہو چکا ہے
یہاں انسان انسان کو نوچ رہا ہے غربت عروج پر ہے حکمران کرپٹ ہیں عوام میں
بھی جس کا جہاں جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ نوچ کھاتا گے یقیناً اس کی بہت سی
باتیں ٹھیک تھی لیکن اپنے گھر کو ٹھیک ہم نے خود کرنا ہے یہ پاکستان بہت
حسین ہے ۔ ہیرا ہے فقط اس کو تراشنا ہے اور یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے اپنی
ذات سے آغاز کرنا ہے جہاں اس ملک میں کرپٹ حکمران ہیں وہیں نیک لوگ بھی ہیں
جن کی دعاؤں سے اس ملک کا نظام اس خداوند کی رحمت کو کشش کرتا ہے ۔ ذرا خود
دیکھیں یہ وہ ملک ہے جہاں اگر بچے کا کوئی وارث نہیں تو چاچو پال دیتے ہیں
ماموں کے گھر ان کا بیٹا بن کر رہ لیتے ہیں ۔ بڑا بھائی مزدوری کر کے بہن
کی شادی کر لیتا ہے ، چند پیسے چھوٹی چھوٹی نوکری سے نکال کر ماں جی کو
عمرہ کروا دیتے ہیں ۔ ایک میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے دو بہنیں ایف ایس سی
میں پوزیشن لیتی ہیں آگے پڑھنے کے یونیورسٹی جانے کے پیسے نہیں ہوتے تو ایک
بہن کپڑے سلائی کرتی ہے اور دوسری بہن کے یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرتی
ہے کیا کمال تربیت ہے ابھی بھی یہ چیزیں زندہ ہیں اور یہ سب باہر کے ممالک
میں نہیں ہے جہاں جانے کی نوکری کی خواہش ہم رکھتے ہیں وہاں تو نفسا'نفسی
عروج پر ہے کسی کے پاس وقت نہیں ہے کسی کے لئے کیوں کہ ہم انھیں فالو کر
رہے ہیں تو یہ چیزیں آہستہ آہستہ ہمارے ملک میں آرہی ہیں لیکن یہ ملک
پاکستان اسکی بنیاد اسلام ہے اور یہاں کے لوگوں میں یہ احساس قدرتی ہے یہ
انسانی ہمدردی قدرتی فطری عمل ہے اور ہمیں ایسی ہمدردی کو فروغ دینا چاہیے
یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمارے اس چمن کو بہتری کی طرف لے جانے والی ہیں ۔ ہمیں
ہماری سوچ میں تھوڑی بہتری کرنی ہے یہ جو لوگ ہمارا حوصلہ پست کرنے میں لگے
ہوتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے در اصل وہ آپ کے مخلص نہیں ہیں
آپ کے وژن کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں ہمیں بس ایسے لوگوں کو اگنور کرنا ہے
اور اپنی ذات کو پاکستان کے فائدے کے لئے وقف کرنا ہے واصف علی واصف صاحب
فرماتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا ۔ اگر ہمیں
کچھ بڑا کرنا ہے تو چھوٹے چھوٹے لوگوں کی گھٹیا باتوں سے اپنا حوصلہ پست
نہیں کرنا ہے اپنے ملک کو مفاد دینا ہے ۔ اس سال کے اختتام میں ہمیں اپنی
ناکامیوں سے سیکھنا چاہیے ہمارا معاشرہ ہمیں ہماری ناکامی پر کوستا ہے ہمیں
ناکامی سے سیکھنا چاہیے اس ناکامی کو مثبت رنگ دینا ہے یہ سوچ ہمیں اپنے
اندر خود پیدا کرنی ہے اللّه نے انسان کو مسکراہٹ ،حسن اخلاق کی وہ طاقت
بخشی ہے کہ کوئی بھی انسان پگھل جاتا ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ساری زندگی حسن اخلاق کا عملی نمونہ ہے ۔ میری ذاتی ایک کہانی ہے
میں کالج سے واپسی پر ایک سیکورٹی گارڈ کو سلام کرتا تھا انکا حال احوال
پوچھا کرتا تھا یہ میرا روز کا معمول تھا چند روز طبیعت ناساز رہی تو میں
کالج سے غیر حاضر رہا لیکن جب چند روز بعد جب میں گیا تو وہ گارڈ مجھے دور
سے دیکھتے ہوئے مسکرایا اور گلے لگا لیا اور کہتے ہیں کہ کہاں رہے مجھے فکر
تھی کہ کہاں گیا میرا بیٹا ! کچھ دن سے نظر نہیں آیا یہ فطری عمل ہے انسان
کی محبّت کو جانور پہچان جاتے ہیں یہ تو پھر انسان ہے، آپ استقامت سے یہ
کام کریں آپ کے رشتوں میں محبت بڑھنے لگ جائے گی ۔ رشتے ، تعلقات بہتری کی
طرف جانا شروع ہو جایئں گے تو ہمیں یہ اس سال یہ چیزیں اپنی عادت بنانی ہیں
انہیں اپنی ذات پر لازم کرنا ہے ۔ حالات ہمیں خود بہتر کرنے ہیں اپنی ذات
سے آغاز کرنا ہے ۔ اپنی ذات کے لئے نہیں اپنے وطن کے لئے کام کرنا ہے
پاکستان سے باہر جا کر نہیں پاکستان میں رہ کر اس کو فائدہ پوھنچانا ہے ۔
اس سال سے بھی ویسی ہی ڈھیروں خواھشات وابستہ ہیں جیسے پچھلے سال سے تھیں
اور ابھی تک وہ نامکمل ہیں ان تمام باتوں خواہشوں حسرتوں کے نا مکمل رہنے
کی وجہ بس ایک ہے اپنے مقصد پر ثابت قدمی نہ ہونا ۔اپنے مقاصد پر ثابت قدم
رہیں اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں ۔ خود میں تبدیلی لایئں ۔ یہ
اچانک نہیں ہوگا تھوڑا وقت لگے گا خود کو مثبت سانچے میں ڈھالنے کے لئے
،لیکن یہ تبدیلی آپ کی پوری زندگی بدل دے گی ۔ اسی لئے زندگی کا سورج غروب
ہونے سے پہلے ہمیں خود کو درست کرنا ہے تاکہ ہماری آنے والی زندگی بہتر ہو
سکے اور ہم دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں ۔ اللہ سے دعا ہے
نیا سال سب کیلئے ڈھیروں خوشیاں اور کامیابیاں لے کر آئے، جس کی جو خواہشات
اور تمنائیں اس سال ادھوری رہ گئیں وہ اس سال میں پوری ہو جائیں ۔
نیا سال مبارک ۔
پاکستان زندباد
|