ناریل کے درخت پر چڑھنے والے باپ کا بیٹا بھی یہی کرے گا، لوگوں کے طعنوں نے کیسے اس نوجوان کو بلندی تک پہنچا دیا؟ حوصلے کی داستان

image
 
ایک پرانی کہاوت ہے کہ غریب پیدا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے مگر غریب مر جانا ضرور ناکامی کی بات ہے۔ اس دنیا میں کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو کہ جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کا پیدا ہونا کوئی بڑی خبر نہیں ہوتی ہے اور وہ عام سی زندگی گزار کر ایک دن مر جاتے ہیں اور ان کا مرنا بھی سب کے لیے ایک عام سی بات ہوتی ہے-
 
مگر ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا کچھ لوگ اگرچہ پیدا تو غریب گھرانے میں ہوجاتے ہیں لیکن ان کی ہمت اور حوصلہ ان کو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنے دیتا جب تک کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر نہ حاصل کر لیں-
 
باحوصلہ نوجوان کی ہمت کی داستان
ایسا ہی ایک نوجوان ابین گوبی بھی ہے جس کا تعلق بھارت کے علاقے کیرالہ سے ہے۔ ابین کے والد ناریل کے درختوں پر چڑھ کر ناریل توڑا کرتے تھے۔ ان کے اس پیشے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا اس وجہ سے معاشرے میں ابین اور اس کے خاندان کی بھی کوئی عزت نہ تھی-
 
اگرچہ ابین اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا مگر جیسے ہی سترہ سال کی عمر کو پہنچا تو درخت پر سے گر کر اس کے والد کا انتقال ہو گیا-
 
image
 
کم عمری میں گھر کی سربراہی
ابین کی زندگی کا یہ مشکل ترین وقت تھا۔ والد کی جمع پونجی نہ ہونے کے برابر تھی اور گھر پر اس کی ماں اور بھائی اس قابل نہ تھے کہ زندگی کی گاڑی کو کھینچ سکیں تو اس وقت میں گھر کی معاشی صورتحال کو سنبھالنے کی تمام تر ذمہ داری ابین کے کاندھوں پر آپڑی-
 
ایسے وقت میں ابین نے مزدوری کرنے میں بھی عار نہ سمجھا اس نے اپنی تعلیم چھوڑ کر چھوٹے موٹے کام کرنے شروع کر دیے اس نے دیواروں پر رنگ کیا، کبھی ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کیا کبھی دکاندار بنا تو کبھی کسی ہوٹل میں برتن دھونے پڑے تو وہ بھی دھوئے-
 
تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں
ان تین سالوں میں ہر طرح کے کام کرنے کے بعد ابین اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اس نے ترقی کرنی ہے تو اس کے لیے اس کو تعلیم حاصل کرنی ہوگی- لہٰذا اب اس نے اپنی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی- مگر کام اور تعلیم دونوں کو ایک ساتھ مکمل کرنا اس کو بہت مشکل لگا لہٰذا تعلیم کو ایک بار پھر ادھورا چھوڑ دیا-
 
دو سال کے بعد ابین نے کسی نہ کسی طرح اپنی ڈگری تو مکمل کر لی مگر ابھی بھی آئندہ زندگی میں کیا کرنا ہے یہ اس کے لیے ایک بڑا سوال تھا - ایسے وقت میں ابین کے ماموں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس کو سرکاری نوکری کے حصول کا ٹیسٹ دینا چاہیے جس کی تائید اس کی والدہ نے بھی کی کہ ابین کو سرکاری نوکری کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے-
 
سرکاری نوکری کے ٹیسٹ کی تیاری
اپنی زندگی کی کہانی بتاتے ہوئے ابین کا کہنا تھا کہ مزدوری اور نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کی تیاری کرنا آسان کام نہ تھا- اس کے لیے ابین دن میں 15 گھنٹے پڑھتا تھا۔ نوکری کے ساتھ ساتھ ابین کبھی بائک پر بیٹھ کر پڑھتا تھا تو کبھی ہوٹل سے فالتو کاغذ لے کر اس پر لکھ کر پڑھائی کرتا-
 
لوگ ابین کو دیکھ کر اس کا مذاق اڑاتے اور اس کو کہتے تھے کہ یہ بھی اپنے باپ کی طرح بلندی سے ہی گرے گا اوپر جانے کے خواب دیکھ تو رہا ہے مگر یہ صرف خواب ہی ہوں گے-
 
 
لوگوں کی تنقید کا محنت سے جواب
ابین نے دو سال تک شدید ترین محنت کرنے کے بعد سرکاری نوکری کے حصول کے لیے ٹیسٹ دے دیا۔ وہ دن ابین کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا جب کہ اس کو یہ خبر ملی کہ وہ مقابلے کے امتحان میں گیارہ کے گیارہ پرچوں میں نہ صرف کامیاب ہو گیا بلکہ اس کی ڈيوٹی بھی ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کلکٹر کے ساتھ لگ گئی-
 
پہلی تنخواہ سے بڑی خواہش کی تکمیل
ابین کا کہنا تھا کہ جب اس کو پہلی تنخواہ ملی تو وہ اپنی ماں اور بھائی کو لے کر شاپنگ کے لیے گیا اور اس نے اپنی ماں کے لیے دو ساڑھیاں خریدیں جبکہ بھائی کو شرٹ لے کر دی- اس کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کی ان محنتوں کا انعام تھا جو اس نے زندگی میں کچھ بننے کے لیے کی-
 
ابین کی زندگی ان سب کے لیے ایک مثال ہے جو کہ مشکلوں سے حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں کہ انسان اگر کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو صرف اور صرف اپنی محنت پر بھروسہ کرنا چاہیے-
 
 
 
YOU MAY ALSO LIKE: