|
|
تین سالہ معصوم یحییٰ آفریدی جس کا تعلق خیبر پختونخواہ
کے علاقے باڑہ سے تھا۔ اپنی زندگی کی صرف تین بہاریں ہی دیکھ سکا، اپنی عمر
کے ہر بچے کی طرح یحییٰ بھی اتنا معصوم تھا کہ اس کو اگر جلتا انگارہ بھی
نظر آجاتا تو وہ اس چمکتی چیز کو سونا چمک کر پکڑ لیتا- |
|
اپنی اسی معصومیت کے سبب یحییٰ اپنے چھوٹے
چھوٹے قدم اٹھاتا اپنے گھر کے قریب موجود اسی گز گہرے کنويں کی طرف بڑھا
بدقسمتی سے اس کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ وہ یہ قدم اپنی موت کی جانب
بڑھا رہا ہے- |
|
اس کے اردگرد اس وقت اس کا دھیان رکھنے والا اس کا بڑا اس کا محافظ کوئی
موجود نہ تھا اسی وجہ سے وہ یحییٰ بے دھیانی میں کنوئيں کی منڈیر تک پہنچا
اور پیر پھسلنے سے اندر چلا گيا- |
|
|
|
تین سالہ معصوم بچے کے لیے اسی گز گہرا یہ کنواں کسی
عفریت کی طرح منہ کھولے بیٹھا تھا اور اس بچے کے گرتے ہی اس کو اپنے اندر
نگل گیا، اس کے لواحقین نے پہلے اپنی مدد آپ کے تحت اور اس کے بعد حکام سے
گزارش کی کہ کسی طرح یحییٰ کو اس کنوئيں نے نکالنے میں ان کی مدد کریں- |
|
مگر چونکہ یہ ایک غریب کا بچہ تھا تو اس کی مدد کے لیے
کوئي بھی نہیں آیا کسی امیر کا بچہ ہوتا تو ریسکیو کے لیے بڑی بڑی ٹیمیں یا
فوج کے ہیلی کاپٹر ہی آجاتے تاکہ زندہ نہ بھی ہوتا تو اس معصوم کا لاشہ ہی
نکال لیتے تاکہ اس کی دکھی ماں اپنے بیٹے کو کم از کم آخری بار اپنے سینے
سے تو لگا سکتی- |
|
مگر اس بچے کے ساتھ ایسا بھی نہ ہو سکا اور اس کے
لواحقین نے اس اسی گز گہرے کنوئيں کو ہی اس کی قبر تسلیم کر کے اس کا نماز
جنازہ ادا کر کے اس پر فاتحہ پڑھ لی اور اس کی دکھیاری بدنصیب ماں اپنے بچے
کو آخری بار دیکھ بھی نہ سکی۔ اس کی معصوم لاش کو کفن بھی نہ پہناسکی۔ اس
کی قبر تک نہ بنا سکی تاکہ اپنے بچے کی آخری نشانی دیکھ کر ہی سکون پا سکتی- |
|
|
|
اس معصوم کی ہلاکت نے اہل علاقہ کو بھی شدید
رنج و غم میں مبتلا کر دیا اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس کنوئيں کو بند کروا
دیا جائے تاکہ کوئی اور بچہ اس کا شکار نہ ہو سکے- |