ایوارڈ کہانی

ملکِ عزیز پاکستان میں صحافت کا جو معیار ہے سبھی جانتے ہیں۔ہر’’ایرا غیرا نتھو خیرا‘‘صحافی بنا پھرتا ہے۔نہ کوئی تعلیمی معیار ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ،نہ ہی کوئی کلیہ و قانون۔صحافت ایک مذاق بنی ہوئی ہے۔ بس’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ والا معاملہ ہے۔جس کے دل میں جو آتا ہے کہے جا رہا ہے۔ اخبارات سے لیکر نیوز چینل تک’’ اک بھرمار‘‘ ہے۔یوٹیوبر چینل کا تو شمار ہی نہیں،باتیں ہزار ہیں مگر معیار ذرا سی بھی نہیں ہے۔اکثر اخبارات و چینل کی طرح،بیشتر خودساختہ،نام نہاد، جعلی صحافی تنظیموں کی طرح متعدد صحافی بھی خود ساختہ ہیں۔ایک کباڑیے سے لے کر ایک دکان دار تک،ایک’’ موٹر مکینک‘‘ سے لے کر’’ کارواش والے‘‘ تک،ایک’’ کیری ڈبے والے‘‘ سے لے کر’’ موٹر سائیکل والے‘‘ تک،ایک پھل فروش سے لے کر ایک سبزی والے تک،مختلف اخبارات کے کارڈ ہولڈرز مگر فرضی صحافی ہیں۔اکثر صحافت کی’’الف ب‘‘ سے بھی واقف نہ ہیں،برائے نام تعلیم،پریس کس چڑیا کا نام،صحافت کس بلا کا نام،کہتے کسے ہیں سے پوری طرح واقف نہ ہونے والے افراد ''پریس'' بنے بیٹھے ہیں۔صحافت کی پٹیاں اور تختیاں لگائے، پتا نہیں، کیا سے کیا بنے بیٹھے ہیں۔اکثر پبلشرز حضرات بھی صحافت کا سہارا لیے''سراب کتاب میلہ'' سجائے بیٹھے ہوئے ہیں۔مختلف’’ کتاب پرنٹ خواہش افراد‘‘ کے گرد ایسے چمٹے ہوتے ہیں کہ کہیں مرغی ہاتھ سے نہ نکل جائے، ایسے یسے انداز اپنائے ہوتے ہیں کہ کہیں گاہک چلا نہ جائے،حالت ایسی کہ صاحب کتاب بھی شرما جائے، اسلامی کتابوں سے لے کر صحافتی و ادبی کتابوں کے ناشروں و پبلشرز میں سے بیشتر ڈرامہ ہوتے،اکثر صحافت کی آڑ میں کتابوں کے مصنفوں کے قلوب وارواح سے اپنی لالچ پسند طبیعت کے سبب کھلواڑ کرتے،بیشتر محض اپنے کمیشن کے چکر میں ذلیل و رسوا نظر آتے،کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے کمال ہوشیاری سے کتب کے نام سے''کتب ایوارڈ میلہ''سجا رکھا ہوتا ہے مقصد اپنا پیٹ بھرنا ہوتا ہے اور لکھاری/ مصنف کے پاک جذبات سے’’ ناپاک ہوئے محض اپنے لالچ و ہوس کے سبب‘‘ ناحق کھیل رہے ہوتے ہیں۔چلو سجاہی لیا کتب میلہ،کوئی بات نہیں ہے مگر دکھ تب ہوتا ہے جب یہاں پر بھی ڈنڈی مار رہے ہوتے’ہیں ’اندھا بانٹے ریوڑیاں،اپنوں کو دے‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔اکثر’’تو مجھے قبول میں تجھے قبول‘‘ والی بات ہے۔ایک دوسرے کو اور دوسرا ایک کو دے رہا ہے۔اکثر تو انتہائی بے شرمانہ طریقے سے کسی نہ کسی پھلجھڑی ڈرامہ رچانے کی آڑ بتا کر پیسہ بھی بٹور لیتے ہیں۔اسی طرح اکثر و بیشتر نام نہاد تنظیموں،این جی اوز نے بھی بے شمار ایوارڈ ڈرامے رچارکھے ہیں۔ ایوارڈ ایسے’’ نامینیٹ‘‘ کر رکھے ہوتے ہیں جیسے جہان میں اس کی دھوم ہو، اکثر ادارے ایسے دیکھے گئے جن کا پاکستانی صحافت میں مثبت رول نہیں مگر ''خوش فہمی ایوارڈ'' سے خوش فہمی میں مبتلا صحافیوں / کالم نگاروں کو نوازکر انہیں فریب اور دھوکے کی ڈگڈگی پر نچا رہے ہیں۔اکثر’’ ایوارڈ پیش‘‘ معاملہ کچھ یوں ہے کہ’’ حمید دے ایوارڈ نذیر کو‘‘اور ’’نزیر دے ایوارڈ حمید‘‘ کو۔ ایوارڈ پروسیجر دیکھنے کے بعد یہی چیز سامنے آتی ہے کہ یہ ایوارڈ صرف ’’حمید اور نذیر‘‘ کے لیے ہی بنے ہیں اور دینے والے بھی’’ مجید اور صدیق‘‘ ہی ہیں کہ سارے موجود ’’اہل‘‘ایوارڈ یافتہ دکھائی دیتے ہیں اور’’نااہل ‘‘قریب سے بھی گزر نہیں پاتے ہیں۔میں نے اپنے پورے صحافی پریڈ میں اکثر ایسے ایوارڈ یافتہ صحافیوں کو دیکھا ہے جن میں مجھے ایوارڈ ملنے والی بات کہیں دکھائی نہیں دی،نہ قول وفعل میں، نہ کلام میں، نہ تحریر میں،میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ ایوارڈ اسے ملتا ہے جس نے ادائیگی’’چمک‘‘
کی ہو،یا خوشامد، جی حضوری میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں،وگرنہ ایوارڈ ملتے دیکھے نہیں کہیں۔اکثر و بیشتر

صحافی و کالم نگار کہتے ہیں کہ ہم نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر بے شمار بے لاگ مبنی بر سچائی تبصرے و تجزیے کیے ہیں۔صحافتی دنیا میں ان کا ایک نام ہے۔جرأت مند بے باکانہ صحافت کی ہے۔ڈرے جھکے بکے نہیں،ہماری صحافتی راہوں میں روڑے اٹکانے والوں نے روڑے بھی اٹکائے مگر ہم رکے نہیں، مگر ایوارڈ ملنا تو دور کی بات،اس کا ایک’’ اوزار‘‘ تک ہاتھ نہیں آیا اور یہاں یہ دیکھتے ہیں کہ چند اداروں، تنظیموں، این جی اوز،ناشروں و پبلشروں کی طرف سے ایوارڈز کی جھڑیاں لگی نظر آتی ہیں۔ایوارڈز ملتے ہیں ’’دھڑیوں کے حساب‘‘ سے بے حساب ملتے ہیں انہیں جنہیں ملنے کا حق بالکل نہیں ہے’’تو میرا میں تیرا‘‘’ اور’تو مجھے دے میں تجھے دوں‘‘ والا معاملہ ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ''تقریب تقسیم ایوارڈ''کچھ ایسے ہی ہوتی نظر آتی ہے۔ممتاز صحافی /معروف کالم نویس جناب مقصود انجم کمبوہ مرحوم صاحب نے سال 2014 میں ایک بار مجھے بتایا کہ میں نے کسی سے یہ کہا کہ یہ ایوارڈ کیسے ملتے ہیں کس طرح دیے جاتے ہیں اور یہ ہمارے نصیب میں کیوں نہیں ہوتا ؟؟؟تو آگے سے جواب یہ تھا کہ آپ صحافتی دنیا کے جانے پہچانے ستارے،بہت زیادہ فین رکھتے مگر اتنا بھی نہیں جانتے کہ گولڈ میڈل ملتے نہیں بلکہ پیسوں کے عوض روپوں کی جھنکار میں بکتے ہیں۔یہ کوئی حکومتی ایوارڈ تھوڑا ہے جو مفت میں مل جائے،ویسے حکومتی ایوارڈ آپ کو مل بھی نہیں سکتا کیونکہ جس لیول کی صحافت آپ کرتے ہو،وہ ایوارڈ اور انعام کی حقدار نہیں،پھر یہ کہ ایوارڈ اسے ملتا ہے جو چڑھتے سورج کو سلام کرے نہ کہ تنقید۔ ادارے/ سوسائٹی/این جی اوز اپنی مشہوری اور صحافی کی پبلسٹی کے پیش نظر گولڈ میڈل و تعریفی اسناد دیتی ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شیخ رشیدسمیت جتنے بھی سیاست دان آپ کو ٹی وی سکرین پر نظر آتے ہیں۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں اور اپنی دانشوری کا ڈھنڈورا پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر تبصرے اور تجزیے کر رہے ہیں۔نہیں،یہ سب لوگ اور پروگرام paidہوتے ہیں۔

اگر یہ لوگ اور پروگرام paid نہ ہوں تو یہ افراد کبھی بھی سکرین پر نظر نہ آہیں،بلکہ ان کی جگہ آپ باالخصوص آپ جیسے مخلص/محب وطن/ وطن کا درد رکھنے والے باسی اس پروگرام کا حصہ ہوں
اور تبصرے اور تجزیے کر رہے ہوں لیکن افسوس آپ کی یہ دقیا نوسی سوچ آپ کے آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے وگرنہ آپ بھی ہماری طرح چڑھتے سورج کو سلام کرکے ملک کے ممتاز اینکرپرسن،معروف تجزیہ نگار ایوارڈ جیت کر گولڈ میڈلسٹ صحافی/کالمنسٹ کہلاتے مگر آپ اس کے اہل نہیں ہو سکتے کیونکہ حقیقت یہی ہے جو آپ نے ابھی ملاحظہ فرمائی۔آج کے دور میں گولڈ میڈلسٹ صحافی/ لکھاری بننے کے لئے سیاستدان کی تھپکی،پولیس افسران کا آشیرباد،مقامی غنڈے کی ہلا شیری، معاشرتی رویوں سے انکار،آواز ضمیر کو جانچنے سے عاری ہونا ضروری ہے
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.