|
|
باپ کی تعریف اگر لفظوں میں کی جائے تو شائد اس کو بیان
کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ باپ وہ ہوتا ہے جو اپنے بچے کو انگلی تھام کر چلنا
سکھاتا ہے۔ باپ وہ ہے جو بچے کو بلندی پر چڑھنے کے لیے اپنا کاندھا دیتا ہے۔
باپ وہ ہے جو خود پھٹا جوتا پہن کر اپنے بچوں کو نئے کپڑے دلواتا ہے - |
|
باپ وہ ہے جو سارا دن بھوکے پیٹ رہتا ہے
تاکہ شام میں اپنے گھر والوں کو پیٹ بھر کھانا کھلا سکے۔ باپ وہ ہے جو اپنے
ادھورے خواب اپنے بچوں کی شکل میں پورا ہوتا دیکھتا ہے |
|
باپ وہ ہے جو خود تو گٹر صاف کرتا ہے مگر
بچوں کو صاف کپڑے پہناتا ہے- |
|
زندگی کی مشکلات جتنی بھی شدید ہوں ایک مرد جب باپ بنتا ہے تو وہ ان سب سے
مقابلہ کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ |
|
لوہے پر ضربیں لگاتے اس کو اپنی طاقت سے مختلف شکلوں میں ڈھالتے یہ شخص کب
بوڑھا ہو جاتا ہے اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کہ اولاد کا قد اس سے
اونچا ہونے لگتا ہے- |
|
|
|
ساری عمر سب کی ضرورتوں اور خوشیوں کو پورا کرنے کے سبب
ایک فطری خوداری باپ کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے اس وجہ سے اس کے لیے یہ
قبول کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے ہاتھ بڑھائے |
|
مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ بدنصیب اولادیں ایسی بھی ہوتی
ہیں جو کہ والدین کی آخری عمر میں ان کی خدمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوتی
ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنا وہ باپ جس نے ان کو ساری عمر اپنے منہ کا نوالہ
کھلا کر کسی قابل کیا ہوتا ہے ان کو ایسا باپ ایک بوجھ جیسا لگنے لگتا ہے۔
ایسے باپ اپنی ہی اولاد کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے شدید موسم میں محنت
مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں- |
|
ایسے محنت کش افراد کو دیکھ کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ
یہ میرا باپ نہیں ہے بلکہ اس کی عزت و احترام اور اس کی مشکلوں کو آسان
کرنا ہر اس فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے جو کہ ہمت اور طاقت رکھتا ہواور باپ کی
حقیقی عزت و احترام سے واقف ہو- |
|
|
|
یہ باپ ہمارا فخر ہیں جو کہ اپنی آخری عمر بھی
کسی نہ کسی معاشی مجبوری کے سبب اپنے نرم گرم بستر چھوڑ کر سخت محنت پر
مجبور ہوتے ہیں اور ان کی مدد کرنا ہم سب کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے پہلو
تہی کا سوال آخرت میں صرف ان کی حقیقی اولادوں سے نہیں ہوگا بلکہ سارے
انسانوں سے پوچھا جائے گا- |
|
آخر میں صرف اتنا ہی کہیں گے کہ کچھ نیکیاں
انسان کو صرف اس لیے کر لینی چاہیے ہیں کہ ان کا صلہ اللہ کی بارگاہ سے بہت
بڑا ملے گا- |
|
|
|
اس لیے اگر ایسا کوئی فرد نظر آيا کرے جو اس
عمر میں بھی سخت ترین موسم کے باوجود محنت کرنے پر مجبور ہو تو اس کی مدد
کر دیا کریں تاکہ آپ کی آخری عمر سکون سے گزر سکے- |