بیروزگاری اور اعلیٰ تعلیم سے دشمنی لازم و ملزوم ہیں

وطن عزیز میں بیروزگاری کا مسئلہ کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سال اوائل میں ریاست مدھیہ پردیش کے اندر ڈرائیور کی 15 سرکاری آسامیوں نکلیں ۔ اس کی خاطر تقریباً دس ہزار نوجوانوں نے درخواست دی اور ان میں سے ایک قانون کی ڈگری رکھنے والا جتندر موریا بھی تھا۔انٹرویو کی قطار میں موریا کے ساتھ کئی پوسٹ گریجویٹس، انجنئیراور ایم بی اے امیدوار بھی موجود تھے۔ قانون کی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موریا جج کے امتحان کی تیاری کررہاہے اس کے باوجود ڈرائیور کی ملازمت کے اس ہونہار امیدوار نے اپنی حالتِ زار اس طرح بیان کی کہ ’ کبھی کبھار کتابیں خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے اس لیے سوچا کیوں نہ یہاں کچھ کام کر لوں۔‘ مودی کے نئے ہندوستان میں نوجوانوں کی یہ حالت اس لیے ہے کیونکہ یہ ’ہم دو ہمارے دو ‘کی سرکار ہے ۔ اس کے اندر معاشی ترقی تو ہورہی ہے مگر اس کا فائدہ صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کو مل رہا ہے ۔ نئی معیشت میں سرکار میں دھنا سیٹھوں کوسرکاری گائے سے دودھ و گھی ملتا ہے اور عام لوگوں کو گئو موتر و گوبر پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کے ایک مؤ قر ادارہ ہے جو تحقیق و تفتیش کے بعد معیشت سے متعلق اہم اعدادو شمارجاری کرتاہے۔ اس نے پچھلے سال دعویٰ کیا تھا کہ بے روز گاری کی شرح دسمبر2022 میں آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بیروزگاری کویڈ کے زمانہ یعنی 2020 کے سات فیصد اور 2021 کے تمام مہینوں سے بھی زیادہ رہی۔ اس وقت عالمی بینک کے سابق چیف اکاونومسٹ کوشک باسو نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں بے روزگاری کی شرح کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی حالانکہ 1991 میں قومی معیشت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ اس کے پاس درآمدات کے لیے زرمبادلہ نہیں تھا ۔ اس کے باوجود بیروزگاری اس سے کم تھی۔اس وقت بنگلہ دیش میں یہ شرح پانچ اعشاریہ تین فیصد، میکسیکو میں چار اعشاریہ سات فیصد اور ویتنام میں دو اعشاریہ تین فیصد تھی۔پروفیسر باسو نے اس کی یہ وجہ بتائی تھی کہ مودی سرکار کی پالیسی سازی میں چھوٹے کاروبار اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھا گیا۔

’سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی‘ نے ابھی حال میں یہ انکشاف کیا ہے کہ بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور امسال دسمبر کے مہینے میں یہ 8.3 فیصد پر پہنچ گئی تھی ۔ بے روزگاری کی یہ شرح گزشتہ 16 ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ دو ماہ قبل نومبر 2022 میں یہ شرح 8 فیصد تھی۔ ان اعداد و شمار کے مطابق دسمبر کے اندر شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 10.09 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ پچھلے مہینے میں یہ شرح 8.96 فیصد تھی۔ اس دوران دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں قدرے کمی واقع ہوئی یعنی وہ 7.55 فیصد سے کم ہو کر 7.44 فیصد ہو گئی۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں ہریانہ کے اندر بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 37.4 فیصد ہو گئی، اس کے بعد راجستھان میں 28.5 فیصد اور دہلی میں 20.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے باوجود قومی انتخاب میں انہیں صوبوں سے بی جے پی سب زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے۔

ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح سے مراد صرف وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے ہیں جو رسمی شعبے میں نوکریاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ غیر رسمی شعبوں میں نوے فیصد لوگ کام کرتے ہیں اور معاشی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے بیروزگاری اعدادو شمار میں غریب، غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند افراد کا شمار ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومت کواندیشہ ہوتا ہے جو جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو گا اس کے بے روزگار رہنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو گا اور وہ غیر رسمی شعبوں میں کم تنخواہ پر کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس کم تعلیم یافتہ غریب کو جو کام بھی ملے جائے وہ اس کو کرنے کو تیار ہوجائے گا۔ حکومت چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت دینے سے قاصر ہے اس لیے چاہتی ہے کہ وہ محروم ہی رہیں اور پڑھے لکھے بیروزگار کی حیثیت سے اس کو شرمسار نہ کریں۔ اپنی انانیت کی خاطر نئی نسل کے مستقبل سے کھلواڑ کرنا نام نہاد دیش بھگتوں کی سب سے بڑی قوم دشمنی ہے جس کا ارتکاب فی الحال ہورہا ہے اور نجکاری کی آڑ میں ملک کے غریب طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے محروم کیا جارہا ہے۔

عام لوگوں کے ساتھ اس ظلم کی چکی میں مسلمان بھی پس رہے بلکہ اگر دوسروں کی حالت آٹے کی ہے تو مسلمانوں کی میدے جیسی ہے ۔ اعلیٰ تعلیم پر آل انڈیا سروے رپورٹ (اے آئی ایس ایچ ای) کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی بھی کم ہے۔ مرکزی وزارت تعلیم کے اعدادوشمار گواہ ہیں کہ کل آبادی میں خواندگی کی شرح اگرچہ 73.4 فیصد ہے مگر مسلمان صرف 57.3 فیصد پڑھے لکھے ہیں ۔ اسی طرح جہاں ملک میں اوسطاً 22 فیصد لوگ میٹرک یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، وہیں مسلمانوں میں یہ تناسب صرف17 فیصد ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں مسلم طلبہ کی موجودگی نہ کے برابر ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق 5.98 فیصد ہندو فارغ التحصیل تھے، جبکہ مسلمانوں کے معاملے میں یہ شرح 2.76 فیصد تھی۔ مسلمان ملک کی کل آبادی کا 14.2 فیصد ہیں لیکن صرف 5.5 فیصد مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل ہے۔اس میں شک نہیں کہ گزشتہ دہائی کے اندر امت کے اندر تعلیم کے تعلق سے خاطر خواہ بیداری آئی ہے اس کے باوجود ابھی بہت کام باقی ہے۔

اس تناظر میں مولانا آزاد فیلو شپ کی خاص اہمیت حاصل تھی مگر سمرتی ایرانی نے اس اسکیم کو بھی بند کرنے کا اعلان کردیا حالانکہ وزیر خزانہ سیتا رمن نے ایوان میں اس کی تردید کر دی اور اس ضمن میں غلط فہمی پھیلانے سے منع کیا مگر یہ کام تو خود اقلیتی امور کی وزیر کررہی ہیں ۔ وہ ان کو کیوں نہیں سمجھا کر معاملہ صاف کیوں نہیں کرتیں ؟8؍ دسمبر کو لوک سبھا میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور سمرتی ایرانی نے 2022-23 سے اقلیتی برادریوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو بھی بند کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ بھول گئیں کہ یہ اسکالرشپ مولانا آزاد کے نام سے تو ہے مگر سارے اقلیتی طبقات کے طلباء اس سے مستفید ہوتے ہیں ۔ اس لیےلداخ کے ستنجیل نمگیال نے پریشان ہوکر اپنے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا انہیں واپس آجانا چاہیے تو والدین نے بتایا دو چار ماہ انتظار کرکے دیکھو۔پارسی، مسلم، عیسائی، سِکھ، بدھ مت اور جین مت کے طلباء کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے اس کے تحت پانچ سالہ مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ سالانہ تقریباً 750 طلباء اس فیلو شپ سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں ۔

وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیم کی مسابقت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ تحقیق اور ڈاکٹریٹ کے لیے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جے آر ایف اسکیم سے مستفید ہونے والے طلبہ کو این ای ٹی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔اس سال چار مرحلوں میں تقریباً پانچ لاکھ طلبہ نے 82 مضامین کے لیے امتحان دیا اور اس میں سے صرف 9 ہزار اسکالرشپ کے مستحق ٹھہرے۔اس کے علاوہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ ان اقلیتی طبقات کے لیے ہے جو یوجی سی کی جے آر ایف اسکالر شپ پانے میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔اس کے تحت ماہانہ تقریباً 30 ہزار روپے اور دو سال بعد سینئر ریسرچ فیلو بننے پر تقریباً 35 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہنے کے لیے تقریباً آٹھ ہزار روپئے کا وظیفہ بھی ملتا ہے۔مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کی یہ دلیل غلط ہے کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ دیگر اسکیموں سے اوور لیپ کرتی ہے کیونکہ حکومت نے اس وظیفے کے لیے خاندان کی ایک مخصوص آمدنی مقرر کررکھی ہے۔ اس لیے اوورلیپ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ویسے بھی چونکہ دونوں فیلو شپس یو جی سی ہی دیتا ہے اس لیے ڈبل اسکالر شپ تو لے ہی نہیں سکتا۔

سمرتی ایرانی کی یہ دلیل گمراہ کن ہے کہ اسی طرح کی کئی دیگر اسکیمیں دستیاب ہیں، جن کے لیے مسلم طلبہ اہل ہیں، مثلاً او بی سی کے لیے اسکالرشپ وغیرہ ۔ وہ اس بات کو بھول رہی ہیں کہ مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد غیر او بی سی ہے۔ ایسا کرنے سے او بی سی طلبا کی اسکالر شپ میں ایک نیا حصے دار بڑھ جائے گا اور دونوں کا حق مارا جائے گا ۔مولانا آزاد فیلو شپ پر کس قدر کم رقم خرچ ہوتی ہے یہ بتاتے ہوئے سمرتی ایرانی نے کہا تھا کہ 2014-15 سے 2021-22 کے درمیان اس کے تحت 6 ہزار 722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا اور ان پر کل 738 کروڑ 85 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے مفاد میں لاکھوں کروڈ کاقرض معاف کرنے والی سرکار کا یہ معمولی رقم بچا کر طلبا کو تعلیم سے محروم کرنا شرمناک نہیں تو کیا ہے؟ سال 2019-20 میں ہندوستان کے اندر اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں مجموعی اندراج کا تناسب 27 فیصد ریکارڈ کیا گیایعنی ایک سوچالیس کروڈ کی آبادی میں صرف دو لاکھ طلبہ نے پی ایچ ڈی مکمل کی ۔ سچائی تو یہ ہے موجودہ حکومت ملک میں اعلیٰ تعلیم کا گلا گھونٹ دینا چاہتی ہے تاکہ پڑھے لکھے بیروزگاروں کو پکوڑے تلنے کا مشورہ دے کر شرمندہ ہونے کی رسوائی سے بچا جاسکے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ امیت شاہ کا نااہل بیٹا بی سی سی کا سربراہ بن کر کروڈوں میں کھیلتا ہے اور ملک تعلیم یافتی نوجوان معمولی ملازمت کے لیے در در کی ٹھوکر کھاتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.