تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا رجحان

پاکستان میں آئے روز منشیات کے بڑھتے دلدل نے ہماری نوجوان نسل کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگا کر لاکھوں پڑھے لکھے معزز خاندانوں کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلباؤ طالبات، جیلوں کے قیدیوں میں آئیس، ہیروئن، کوکین، چرس، افیون، شراب، مارفین کے ٹیکے سگریٹ نوشی، شیشہ نوشی کے استعمال میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا جار ہا ہے۔ جس پر والدین کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ادارے بری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نارکاٹکس کنٹرول پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے کر قانونی کاروائی کرتے رہتے ہیں۔ سزاؤں کے قانون میں سخت ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں دھشت گردی کے بعد دوسرا سب سے سنگین جرم منشیات کی فیکٹریاں اور سمگلنگ ہے۔ جن کے خلاف پاک آرمی کے زیر نگرانی فوری گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے۔پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن ان کیپس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کے اس اہم ایشو پر نوٹس لے کر ذمہ دار اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔تعلیمی اداروں کے اندر طلباء میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر ایک رپورٹ کے مطابق بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ متوسط درجے کے اسکولوں میں بھی منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح ہے؟ اس بارے میں طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گارڈز منشیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر کوئی گارڈ پکڑا بھی جائے تو چند دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لئے پولیس کو چاہئے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کے باہر خصوصاً چھٹی کے اوقات میں غیر متعلقہ افراد کے کھڑے ہونے پر پابندی عائد کریں۔محکمہ پولیس کی کئی کالی بھیڑیں بھی منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سر پرست ہیں، جب کہ منشیات فروشوں کو سیاسی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے آواز اٹھانے پر منشیات کے خاتمہ کی جدوجہد میں اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اور محکمہ سوشل ویلفیئر فعال ہوگئے ہیں۔سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے انسداد منشیات پاکستان کے چیئرمین اکمل اویسی کہتے ہیں کہ منشیات کی وبا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمہ کے لئے نیٹ ورک پوری ذمہ داری سے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے.ایک محتاط اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ صرف ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے جب کہ 15 فیصد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ اس تعداد میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔دیکھا گیا ہے۔پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت اب تک منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوچکی ہیں۔اس ضمن میں محکمہ ایکسائز، کسٹم اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کے باجود پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔اس کے استعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرائم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔بعض افراد کے مطابق منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جب کہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ملکی اداروں کے ساتھ عام شہری پربھی فرض ہے کہ منشیات جیسے معاشرتی ناسورکے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ مزید خاندانوں کے چراغوں کو بجھنے سے بچایا جاسکے اورہر والدین کے چہرے پرمسکان سجی رہے۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 24975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.