ممبئی کا آزاد میدان دہلی کا جنتر منتر ہے بلکہ یہ کہنا
زیادہ مناسب ہے کہ دہلی کا جنتر منتر ممبئی کے آزاد میدان کا عکس ہے
کیونکہ جنگ آزادی کی تحریک میں ممبئی کو دہلی پر فوقیت حاصل تھی۔یہ دونوں
مقامات عوامی اجتماعات اور مظاہروں کے لیے مختص ہیں ۔ حکومت کی جانب سے کی
جانے والی ناانصافی یا حق تلفی کے خلاف وہاں احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ ایک عام
ہندوستانی چونکہ اپنے مذہبی معاملات یا قومی جذبات کے حوالے سے زیادہ حساس
ہوتا ہے اس لیے اکثر مظاہرے انہیں موضوعات پر ہوتے ہیں مثلاً ماضی قریب میں
مسلم خواتین کی شریعت میں مداخلت کے خلاف عظیم الشان احتجاجی جلسہ یا این
آر سی کو لے کر بے مثال مظاہرہ وغیرہ ۔ اسی طرز پر ممبئی کے جین سماج نے
بھی ا س ہفتہ آزاد میدان پرجھارکھنڈ میں واقع جین یاتری سمید شکھرجی کو
سیاحتی مقام قرار دینے کی مخالفت میں مظاہرہ کیا ۔اس میں مہاراشٹر سرکار کے
وزیر منگل پربھات لودھا نے شرکت کی اور گجرات کےپلیتانہ میں جین مندر کے
اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کی مذمت کرتے ہوئے گجرات حکومت سےمجرمین کے خلاف
سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
آزاد میدان پر سماج کے دیگر بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی ، بیروزگاری ،
تعلیم اور صحت جیسے مسائل پر احتجاج کا اہتمام کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ہندوستانی عوام کی جذباتی سوچ یا حکومت
کے حوالے سے مایوسی کہ کچھ ہوگا نہیں تو کیوں اپنا وقت ضائع کیا جائے ؟ اس
تناظر میں پچھلے دنوںآزاد میدان پر اقلیتوں کے لیے اٹھارہ سال سے جاری
پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے طلبا کی خاطر تعلیمی وظائف کی بحالی کے
لیے مظاہرہ کیا گیا ۔ یہ وظائف چونکہ تمام اقلیتوں کے لیے تھے اس لیے
مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے لوگ بھی اس میں شریک ہوئے ۔ اس ناانصافی
کے خلاف اکثریتی سماج کے ان لوگوں نے بھی اپنی موجودگی کے ذریعہ حمایت کا
اعلان کیا جو اس سے مستفید نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ خیر کے کاموں میں ایک
دوسرے کے ساتھ اشتراکِ عمل کی اہمیت سے لوگ پہلے سے واقف تھے مگر مودی یگ
میں اس کا احساس بڑھ گیا ہے اس لیے سرکاری آسیب ایک ایک کرکے ان ساری
تحریکوں کو نگل جانا چاہتا ہے جو عام لوگوں کی فلاح بہبود میں دلچسپی رکھتے
ہیں اور ان کے حقوق کی پامالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔
تعلیمی وظائف کی بحالی کے لیے ممبئی میں ’اسکالرشپ جن آندولن کمیٹی‘ نامی
ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ پلاننگ کمیشن کے سابق رکن ڈاکٹر بھالچند
مونگیکر نے چونکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ پر عملدر آمد کے لیے اس وظیفہ کی
تجویز پیش کی تھی اس لیے انہیں کو مذکورہ مہم کی قیادت سونپی گئی۔ اس تحریک
کو آگے بڑھانے کی خاطر ایک مشاورتی نشست کے بعد منعقد ہونے والی پریس
کانفرنس میں احتجاج کا اعلان کیا گیا تاکہ حکومت کو اس کی غلطی کا احساس
دلایا جاسکے ۔ احتجاج کے بعد مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو
میمورنڈم دے کر انہیں اسے صدر مملکت دروپدی مرمو تک اسےپہنچانے درخواست کی
گئی تاکہ وہ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروا کر بحالی کا فیصلہ کروائیں ۔
اس موقع پر گورنر نے بھی معاملے کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے احتجاج کے
حوالے سے کہا کہ ماں بھی اس وقت تک بچے کی جانب متوجہ نہیں ہوتی جب تک کے
بچہ اس کے لیے شور شرابہ نہ کرے۔ ویسے یہ مثال نادان اور لاپروا ماں کے لیے
ورنہ شفیق والدہ تو بغیر چیخ و پکار کے اپنی اولاد کی ضرورت پوری کردینی
ہے۔
پری میٹرک اسکالر شپ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر کا جاننا
ضروری ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی تھی کہ ملک میں
مسلمان دیگر طبقات کے بالمقابل مختلف میدانوں میں پچھڑ گئے ہیں اور ان میں
سے ایک شعبہ تعلیم کا بھی ہے۔ اس لیے تعلیم کے میدان میں پیدا ہونے والی
کھائی کو ختم کرنے کی خاطر نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کو خصوصی
تعلیمی وظائف کا حقدار ٹھہرایا گیا ۔ اس کا بنیادی مقصد تعلیم کو ادھورا
چھوڑ کر دیگر کا موں میں لگ جانے والے طلباء یعنی ڈراپ آوٹ کی شرح کم کرنا
تھا۔ اس وظیفے کے مستحق وہی والدین تھے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے کم
ہو اور انہوں نے پچھلے امتحان میں پچاس فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہوں ۔
یعنی ایسے طلبا جنھیں پڑھائی میں دلچسپی تو ہے مگر ان کے غریب والدین تعلیم
کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ہوں ۔ ایک گھرکے صرف دو طلبا اس کے اہل
ہوتے تھے ۔ اس اسکالرشپ کا تیس فیصدحصہ لڑکیوں کے لیے مختص تھا کیونکہ ان
میں ڈراپ آوٹ کا تناسب زیادہ ہے۔ ان ساری شرائط کے بعد جملہ سالانہ ایک
ہزار کے وظیفے کو اس حکومت نے بند کردیا جو سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب
کا وشواس کے نعرے لگاکر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
مذکورہ اسکالر شپ کو ختم کرنے میں سرکاری دلیل یہ ہے اب چونکہ پہلی سے
آٹھویں تک مفت تعلیم کا حق حکومت نے تسلیم کرلیا ہے اس لیے ضرورت باقی
نہیں ر ہی ۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کی منطق کئی حوالوں سے غلط ہے۔
اول تو سارے لوگوں کو مفت تعلیم دینے حق کاغذ پرتو دیا گیا مگر ملک بھر میں
ابھی تک پوری طرح نافذ نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے تحت صرف سرکاری مدارس میں مفت
تعلیم کا اہتمام ہے۔ سرکاری مدارس ہر علاقہ میں موجود نہیں ہیں ۔ وہاں کا
تعلیمی معیار اس قدر ناقص ہے کہ کو سرکاری منتری تو دور سنتری بھی اپنے
بچوں کو وہاں پڑھانے کے لیے نہیں بھیجتا ۔ اس وظیفہ سے غیر سرکاری اسکول کے
طلبا بھی استفادہ کرتے تھے ۔ یہ بنیادی طور پر غریب لوگوں کے لیے اپنے بچوں
کو اسکول بھیجنے پر اکسانے والی ایک ترغیبی رقم تھی اس لیے اسے بند کرنا
ملک میں بچہ مزدوری میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ حرکت اڈانی اور امبانی
جیسے سرمایہ داروں کے لیے تو مفید ہوسکتی ہے مگر عام لوگوں کے مستقبل کو
تاریک کرنے والی ہے۔
سرکاری جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2006 کے بعد سے ڈراپ آوٹ کی
شرح میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ بات بھی تسلیم کی گئی ہے کہ ہنوز تعلیمی
کھائی موجود ہے اس لیے اسے جاری رکھنا چاہیے تھا۔ نیشنل پروڈکٹیوٹی کاونسل
ایک سرکاری ادارہ ہے ۔ اس نے ایک جائزے میں اقلیتی طلبا کے ڈراپ آوٹ کی
وجوہات معلوم کرنے کوشش کی تو چونکانے والے انکشافات ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا
گیا کہ تعلیم کے بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے یعنی 92 فیصد لوگ اسی
سبب سے اپنے بچوں کی تعلیم روک دیتے ہیں۔ دوسری وجہ والدین کی ناخواندگی ہے
۔ 78 فیصد ناخواندہ والدین اپنے بچوں کو تعلیم نہیں پوری کرنے دیتے ۔ تیسری
وجہ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی سے37 فیصد طالبات کی تعلیم منقطع ہوجاتی ہے
جبکہ 32 فیصد لوگ اپنی بیٹیوں کو اس لیے اسکول جانے سے روک دیتے ہیں کیونکہ
وہاں طالبات کے لیے الگ سے بیت الخلا نہیں ہے۔ سبھی کو تعلیم کا حق دینے
والی وزیر تعلیم کا سر اس حقیقت ک ودیکھ کر شرم سے جھک جانا چاہیے۔ یہ
صورتحال دراصل بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگانے والی سرکار جھوٹ نمایاں
کرتی ہے ۔مذکورہ جائزے کے مطابق 24 فیصد والدین کو نقل مکانی کے سبب بھی
بچوں کی تعلیم منقطع کرنی پڑتی ہے۔ وزیر تعلیم کو چاہیے کہ ان رپورٹ پر
توجہ دے کر مثبت اقدامات کرنے بجائے غیر منطقی انداز میں وظیفہ بند کرنے کی
ظلم و زیادتی سے گریز کریں ۔
مودی جی کی اس اسکالرشپ سے دشمنی بہت پرانی ہے ۔ جس وقت وہ گجرات کے وزیر
اعلیٰ تھے تو ریاستی حکومت نے اس اسکیم کے نفاذ کے لیے مرکز کی طرف سے
بھیجی جانے والی رقم کو واپس کر دیا تھا ۔ گجرات حکومت کی سپریم کورٹ میں
دلیل یہ تھی کہ مرکز گجرات میں اس اسکیم کو نافذ کرنے پر مجبور نہیں کر
سکتا کیونکہ یہ مذہب پر مبنی ہے۔ یہ عجیب دوغلاپن ہے کہ اسکالرشپ یا
ریزرویشن دینے کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو دلیل بنایا
جاتا ہے لیکن جب وہ اپنے پرسنل لا کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کے دینی تشخص
کو نظر انداز کرکے صرف ہندوستانی شہری بنا دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں سپریم
کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہاتھا کسی سیکولر ملک کا حج پر سبسڈی دینا
درست نہیں ہے مگر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس رقم کو مسلمانوں کی فلاح بہبود
پر یہ خرچ کرے۔ ایسے میں اضافی مدد کرنے کے بجائے پہلے سے جاری وظیفہ بند
کردینا بدترین ظلم اور توہین ِعدالت بھی ہے۔
سمرتی ایرانی کو شاید یہ غلط فہمی ہے کہ اس وظیفے سے صرف مسلمان استفادہ
کرتے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق 2014-15 سے
2021-22 کے درمیان یعنی جب سے مودی نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی جملہ 3.63
کروڈ مسلمانوں سے اس سے فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ 53.13 لاکھ عیسائیوں
35.90 لاکھ سکھوں 22.98 لاکھ بودھوں اور 4.50لاکھ جین سماج کے لوگوں نے بھی
اس سے استفادہ کیا ۔ یہ تعداد مختلف طبقات کی آبادی کے تناسب اور ضرورت کے
مطابق ہے۔ سرکاری ضابطوں پر اگر پورا اتر کر مسلمان اس سے مستفید ہوتے ہیں
تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کا یہ ناعاقبت اندیش فیصلہ
تمام شہریوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے جاری کردہ اقدامات کو ختم
کرنے کی ناپاک سازش ہے۔ حکومت اگر اپنی اکثریت کے بل پر یہ ظلم کرنا چاہے
تو یہ اس کا جمہوری حق ہے لیکن پھر اسے ببانگ دہل یہ اعلان کرنا چاہیے اور
لنگڑے لولے بہانوں سے لیپا پوتی کرنے کی منافقت چھپن ّ انچ کے سینے والے
وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتی ۔ ویسے منافق کی زمین پر یہ شعر موجودہ حکومت
پر ہو بہو صادق آتا ہے کہ ؎
ہو جاتا ہے جب بھی کوئی سالار منافق
قائم وہاں ہو جاتی ہے سرکار منافق
|