|
|
کراچی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو اٹھارویں صدی عیسوی
میں منوڑہ کیماڑی کے ساحل پر قائم ایک مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کے روپ میں
نظر آتا ہے دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ کیماڑی کا ساحل کراچی کی سب
سے قدیم آبادی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا- |
|
قدیم کراچی
کی چڑیلیں |
جس طرح ہر قدیم شہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ
داستانیں منسوب ہوتی ہیں تو ایسی ہی کچھ داستانیں کراچی شہر کے ساتھ بھی
منسوب ہیں مگر ان کی حقیقت کو جانچنے اور ان کی سچائی کو ناپنے کا کوئی
طریقہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے- |
|
یہ کہانیاں سینہ بہ سینہ ہر نئی نسل تک
منتقل ہوتی رہتی ہیں اور لوگ ان داستانوں کو مرچ مصالحے لگا کر ایک دوسرے
کو سناتے رہتے ہیں جیسے کہ کراچی کے علاقے کاوساز کی دلہن کی روح کی کہانی
تو سب ہی نے سن رکھی ہوگی آج ہم آپ کو کیماڑی کی لیڈی سوئپر کی کہانی
سنائيں گے- |
|
کیماڑی کی لیڈی سوئپر |
کیماڑی کی لیڈی سوئپر کی چڑیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی چڑیل
تھی جو کہ کراچی ہاربر اتھارٹی کی جانب سے جیکسن بازار سے تقریباً نصف
کلومیٹر کے فاصلے پر خواتین کے لیے بنائے گئے لکڑی کے ٹوائلٹ میں بسیرا
کرتی تھی- |
|
|
|
یہ ٹوائلٹ کے پی ٹی کوارٹرز کے رہائشیوں کے لیے بنائے
گئے تھے یہ کل 20 ٹوائلٹ بنائے گئے تھے جو کہ کے پی ٹی کوارٹرز سے تھوڑے
فاصلے پر بنائے گئے تھے جن میں سے 4 خواتین کے لیے بنائے گئے تھے- |
|
ان ٹوائلٹس کی صفائی کا انتظام کراچی میونسپلٹی کمیٹی کے
ذمے تھا جو کہ ساحل کے کنارے ہونے کے سبب کافی آسان تھا جیسے جیسے اس علاقے
میں لوگوں کی آبادی بڑھتی گئی اس حساب سے ان ٹوائلٹس پر عوام کے رش میں بھی
اضافہ ہوتا گیا- |
|
جس کے بعد یہ بات مشہور ہو گئی کہ دوپہر ایک بجے کے بعد
اور عشا کے بعد ان ٹوائلٹس میں ایک عورت کی بھٹکتی روح دیکھی گئی ہے کچھ
افراد نے اس کو ہندو عورت قرار دیا- |
|
کیماڑی کی چڑيل کا حلیہ |
اس عورت کے بارے میں کچھ افراد کا کہنا تھا کہ
یہ گندمی رنگ کی ایک عورت تھی جس کا قد چھ فٹ تھا جو ساڑھی میں ملبوس ہوتی
اور اس کے ہاتھوں میں چوڑیاں اور پیروں میں پائل ہوتی تھی۔ رات کے وقت جن
افراد نے اس چڑيل کو دیکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ عورت رات میں چوڑياں
کھنکھناتے ہوئے نظر آتی تھی- |
|
مایوں بیٹھی
لڑکی پر اثر |
اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں یہ بات بھی مشہور
ہوئی کہ یہ چڑیل عام خواتین کے بجائے ایسی لڑکیوں پر اثر انداز ہوتی جس کے
پاس سے خوشبو آتی تھی- خاص طور پر مایوں پر بیٹھی لڑکیاں اس کا شکار ہوتی
تھیں کیونکہ ان لڑکیوں پر ابٹن وغیرہ لگائی جاتی تھی اور ان کے پاس سے
خوشبو آتی تھی لہٰذا یہ چڑیل خاص طور پر ان لڑکیوں کو نشانہ بناتی تھی- |
|
اس وجہ سے مایوں بیٹھی لڑکی کو اکیلے ٹوائلٹ
جانے نہیں دیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ چار سے پانچ بزرگ خواتین ضرور جاتی
تھیں اور اس کے ساتھ ایک چاقو حفاظت کے خیال سے ضرور رکھا جاتا تھا تاکہ اس
کے اوپر کوئی اثر نہ ہو سکے- |
|
|
|
مایوں کی دلہن
یاسمین |
اس حوالے سےایک یاسمین نامی لڑکی کا واقعہ خاص
طور پر مشہور ہوا جس کو مایوں پر بیٹھے چار دن ہو گئے تھے اس کے گھر میں جگ
راتا تھا جس کے لیے اسکرین لگا کر فلم دیکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا- |
|
سارے فریبی رشتے دار اور آس پڑوس کے لوگ اس
موقع پر موجود تھے اس موقع پر رات دس بجے کے وقت یاسمین کو باتھ روم جانے
کی حاجت ہوئی جب یاسمین ٹوائلٹ کے قریب گئی تو اچانک چکرا کر گری اور بے
ہوش ہو گئی اس کی اس حالت کو دیکھ کر سب میں یہ مشہور ہو گیا کہ یاسمین پر
ٹوائلٹ کی سوئپر چڑيل قابض ہو گئی ہے- |
|
چڑيل کی کاٹ
|
اس موقع پر فوری طور پر علاقے کے حبشی اسماعیل
عرف جوڑيا شیدی کو بلوایا گیا جس اس طرح کے عملیات کا توڑ کرنے کی شہرت
رکھتا تھا اس نے تقریباً ایک درجن لیموں منگوائے اور یاسمین کے سر پر رکھ
کر کاٹے اور اردگرد گرا کر کوئی عمل کرتے ہوئے اس چڑیل کو یاسمین کو چھوڑ
کر جانے کا حکم دیا جس کے بعد یاسمین ہوش میں آئی- |
|
اس کے بعد اس نے یاسمین کا اوتارا بنانے کا حکم
دیا جو کہ ایک پوٹلی تھی جس میں ناریل، گڑ، بتاشے ،سرسوں کا تیل، مسور کی
دال، لال چاول، آٹا مصری، موتی چور کے لڈو اور لیموں ڈالے گئے اور یہ سارا
سامان اس چڑيل کو خوش کرنے کے لیے ٹوائلٹ کے قریب رکھ دیے گئے اور ایک کالی
زندہ مرغی کو بھی سمندر کنارے چھوڑ دیا گیا- جس کے بعد یاسمین کا نکاح اور
شادی بخیر اسلوبی انجام پائی اور اس کے بعد اس چڑيل نے اس کو تنگ نہ کیا- |
|
کافی عرصے بعد جب اس چڑيل کے حوالے سے اسماعیل
عرف جوڑيا شیدی سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ چڑيل گجراتی بولنے
والی ایک ہندو لڑکی ہے جس کو دو کالی مرغیاں چاہیے تھیں اس وجہ سے اس نے
یاسمین کو نشانہ بنایا- |
|
چڑيل کے
ٹوائلٹس کا خاتمہ |
سال 1992 میں اس جگہ پر بلڈوزر پھیر کر اس کو
مسمار کر دیا گیا ہے اور آج اس مقام پر کمرشل بلڈنگز موجود ہیں جہاں کے لوگ
اس کہانی سے ناواقف ہیں اور شائد بلڈوزر کے ساتھ ساتھ یہاں کی چڑيل کا بھی
خاتمہ ہو گیا- |