حالیہ برسوں میں دنیا نے دیکھا ہے کہ چین نے اہم عالمی و
علاقائی پلیٹ فارمز پر ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی عمدہ ترجمانی کی
ہے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لئے زبردست کوششیں کی ہیں۔اس کی ایک
بڑی وجہ تو واضح ہے کہ چین خود بھی ایک ترقی پزیر ملک ہے اور چاہتا ہے کہ
عالمی ترقی و خوشحالی کے سفر میں دیگر ترقی پزیر ممالک بھی شامل ہو
سکیں۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو اس سلسلے میں
چین کی جانب سے پیش کردہ اہم عوامی پروڈکٹس ہیں جو چین کی جانب سے دنیا
بالخصوص ترقی پزیر ممالک کے حقوق کی عملی عکاسی ہے۔چین نے اس سے قبل بھی ہر
اہم عالمی و علاقائی پلیٹ فارم پر ترقی پزیر ممالک کو درپیش مسائل کو اجاگر
کیا ہے۔چین نے ترقی پزیر ممالک کو مد نظر رکھتے ہوئے تحفظ خوراک اور
توانائی کی سلامتی ، موسمیاتی تبدیلی ، انسداد غربت، عالمی تجارت، ڈیجیٹل
معیشت، سبز تبدیلی اور بدعنوانی جیسے امور پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور
ان موضوعات کو عالمی ترقی کے اہم عوامل کے طور پر اجاگر کیا ہے۔چین کا یہ
موقف رہا ہے کہ ترقی کو بین الاقوامی ایجنڈے کے مرکز میں رکھا جائے.
اس وقت بھی چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے شراکت داروں میں توسیع سمیت
گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کو آگے بڑھانے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے، جس کے
لیے کئی ٹھوس اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مثلاً،چین نے جنوب جنوب تعاون
امدادی فنڈ کو عالمی ترقی اور جنوب جنوب تعاون فنڈ میں اپ گریڈ کیا ہے اور
پہلے سے ہی وعدہ کردہ 3 بلین ڈالر کے فنڈ میں مزید 1 بلین ڈالر کا اضافہ
کیا ہے. گزشتہ سال، چین نے ضرورت مند ترقی پذیر ممالک کو ہنگامی امدادی
خوراک کی متعدد کھیپیں فراہم کی ہیں، اور اضافی ہنگامی انسان دوست امداد
فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے.یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چین اپنے ترقیاتی
ثمرات کو متعلقہ ممالک اور خطوں کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے ساتھ فعال طور
پر ہم آہنگ کر رہا ہے۔گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کی ہی بات کی جائے تو
تاحال، یہ پائیدار ترقی کے لئے پیسفک روڈ میپ اور بحر الکاہل ممالک کی جانب
سے بلیو پیسفک براعظم کے لئے 2050 کی حکمت عملی سے جڑ چکا ہے. افریقی ممالک
نے بھی اسے افریقی یونین کے ایجنڈے 2063 کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔
افریقی ممالک کی بات جائے تو اس پورے خطے کو چین کے نزدیک خاصی اہمیت حاصل
ہے اور اس کی حالیہ مثال چینی وزیر خارجہ چھن کانگ کا اولین دورہ افریقہ
بھی ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ ہر سال کے آغاز پر چینی وزیر خارجہ بیرونی
دورے کا آغاز افریقی ممالک سے کرتے آئے ہیں اور حالیہ دورہ کسی بھی چینی
وزیر خارجہ کی جانب سے افریقہ کا 33 واں سالانہ روایتی غیر ملکی دورہ ہے جو
ہر سال کے آغاز میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افریقی ممالک کے نزدیک چین اور
افریقی خطے کے درمیان روایتی دوستی اور تعاون وقت کی ہر آزمائش پر پورا
اترا ہے۔دوسری جانب یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب چین نے سرحد پار
مسافروں کے لیے لازمی قرنطینہ ختم کرنے کے ساتھ کووڈ۔19 سے نمٹنے کے لیے
اقدامات میں نرمی کی ہے ،جس کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بین الاقوامی
آمد و رفت جلد ہی وبائی صورتحال سے پہلے کی سطح پر واپس آجائے گی۔
چین کی اعلیٰ قیادت کے ترقی پزیر ممالک سے مضبوط روابط کے وژن سے یہ امید
بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ چین افریقہ تعلقات کی ترقی کو مزید فروغ
ملے گا اور تجارت، سرمایہ کاری، ڈیجیٹل جدت طرازی، ماحول دوست ترقی، امن و
سلامتی، ثقافتی اور عوامی سطح پر تبادلے، استعداد کار میں اضافہ، غربت میں
کمی اور زرعی ترقی جیسے شعبہ جات میں تعاون آگے بڑھے گا۔ یہ چین افریقہ
روایتی دوستی کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ افریقی براعظم کی ترقی کے لئے بھی اہم
ہے ، کیونکہ چین افریقی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔یہ توقع
کی جا سکتی ہے کہ چین کی مدد اور تعاون سے افریقی ممالک کو اپنی اپنی
ترقیاتی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور نئے مواقع لانے میں مدد ملے گی۔چین
کا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ حقیقی ترقی وہی ہے جس سے پوری دنیا کے عوام
بلا تخصیص فائدہ اٹھا سکیں اور ترقی کے ثمرات دنیا کے تمام ممالک تک پہنچ
سکیں ، چین اپنے ٹھوس اور عملی اقدامات سے اس تصور کو مزید فروغ دے رہا ہے
جو ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی بہترین عکاسی ہے ۔
|