کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جن کا جینا اور مرنا دوسروں کے لئے
ہے جو اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسروں کے لئے جان کی بازی لگا دیتے
ہیں ذاتی مفاد کو کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کے لیے جیتے ہیں اسی لیے
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہا کہ !
درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
کیونکہ اپنا درد تو جانور بھی محسوس کر لیتا ہے مگر انسان کو اشرف
المخلوقات اس لیے بنایا یا کہ وہ دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھےاور وہ
لوگ جو دوسروں کے دکھ سکھ کو اپنا درد سمجھتے ہیں وہی لوگ انسانیت کے اعلیٰ
منصب پر فائز ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے بعد دو قسم کے کام اس کے
سپرد کیے پہلے کام کو اللہ کے نام سے پکارا گیا اور دوسرے کام کوحقوق
العباد کے نام سے پکارا گیا نماز روزہ زکوۃ حج یہ سب اللہ کے زمرے میں آتے
ہیں جبکہ کہ اللہ کے بندوں کی دل جوئی کرنا ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ان
سے اچھے اخلاق سے پیش آنا تو یہ سب حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں اللہ
اپنے حقوق معاف کر سکتا ہے مگر جہاں تک حقوق العبادکا تعلق ہے تو اس کی
معافی تب تک نہیں مل سکتی جب تک اس شخص سے معافی نہ مانگی جائے جس کے ساتھ
آپ نے زیادتی کی ہو یا جسکی حق تلفی کی ہو قرآن مجید میں بھی بہت بار اس
بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہا کے اندر خدمت خلق کا جذبہ اس قدر زیادہ
تھا کہ آپ اپنی رعایا کی خبر معلوم کرنے کے لیے مدینے کی گلیوں میں راتوں
کو گشت کیا کرتے آپ اکثر فرماتے !
کہ اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو روز محشر عمر سے اس بارے میں پوچھ
گچھ ہوگی۔
انسانیت وہ جذبہ ہے جو ہمیں دوسروں کے بارے میں مثبت سوچنے پر اکساتا ہے
انسانیت کے بغیر معاشرے میں رواداری ممکن نہیں ہے انسانیت ہمیں دوسروں کے
دکھ اور تکلیف کو سمجھنا سکھاتی ہے لیکن افسوس آج ہم خود کو انسان تو کہتے
ہیں لیکن انسانیت سے نہ آشنائی ہے دراصل انسان کی تخلیق کا مقصد ہی مخلوق
خدا کی خدمت کرنا تھا مگربہت سے مسلمان صرف عبادت کرنے کو زندگی کا مقصد
سمجھتے ہیں لیکن اگر مسلہ صرف عبادت کا ہوتا تو اللہ تعالی کی عبادت کے لئے
فرشتے ہی کافی تھے مگر انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہی انسان کی خدمت کرنا تھا
اور اس کے کام آنا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل سیرت
ہمارے لئے لیے انسانیت کی سب سے بڑی اور انمول مثال ہے۔ کفار مکہ نے جب آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ
وآلہ وسلم نے کبھی بھی پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دیا بلکہ انسانیت کی وہ
اعلی مثال قائم کی جس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کبھی بھی رنگ و نسل مذہب زبان کا امتیاز نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ
انسانیت کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے یہی وجہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو شروع میں تو آپ کو مسائل کا
سامنا کرنا پڑا مگر آپ کے حسن اخلاق کو دیکھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے
اور آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے نبی محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو معاف کیا اور دنیا کو انسانیت
کی سب سے بڑی تعلیم دی دی ۔ آج ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات کو بھول گیا
ہے۔آج ہم ایک دوسرے کے درد اور تکلیف سے ناواقف ہے۔ یا یوں کہیں کہ اگر ہم
جانتے ہیں جانتے تو ہم بے حس ہو گئے ہیں۔آج ہم ایک دوسرے کو مصیبت میں دیکھ
کر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانیت
ہمارے دلوں سے مٹ گئی ہے ۔ ترقی کے اس مادرپدر دور میں جیسے جیسے انسان
بڑھتے جا رہے ہیں انسانیت کہیں ہیں نا پید ہوتی جا رہی ہے ۔ کیا اتنا ہی
مشکل ہے انسان ہونا؟ ہرگز نہیں ارے انسانیت کا اظہار تو ہمارے چھوٹے چھوٹے
اعمال سے بھی ممکن ہے ۔ کسی انجان رات چلتے مسافر کو پانی پلا دینا، کسی
بھوکے کی بھوک کا بغیر کہے احساس کر لینا، نا صرف یہ بلکہ انسان ہونے کے
ناطے کسی دوسرے انسان کی مدد کر دینا ، راہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا دینا، یہ
وہ چھوٹے چھوٹے ے دیکھنے والے اعمال ہیں جو ہمارے اندر موجود انسانیت کو
زندہ رکھنے کا موجب بنتے ہیں ۔
اور ہم تو اس عظیم ہستی کی امتی ہے جس کے حسن سلوک کی مثالیں کفارمکہ بھی
دیتے تھے۔
ہم تو اس مذہب کے پیروکار ہیں جو انسان تو انسان بلکہ جانوروں سے بھی
ہمدردی رحم اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے اور یہ سب تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب
ہم میں انسانیت موجود ہو ۔
بقول علامہ اقبال کہ!
یہی ہے عبادت یہی ہے دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انساں |