میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ کسی بھی مسلمان کا
ایمان اسوقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے لئے دنیا میں مجود ہر شہ سے
زیادہ میں پیارا نہ ہو جائوں یعنی اگر ہمارے دل میں عشق مصطفی صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم ہے تو ہمارے ایمان کے پکے ہونے کے چانسز ہیں ورنہ ہم صرف
نام کے مسلمان کہلائیں گے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اگر دیکھنا
ہو تو صاحبہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا مطالعہ کریں اولیاء کرام
بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ عشق مصطفی صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کا اصل رنگ کیا ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کتنے خوش نصیب تھے کہ حالت ایمان میں انہوں نے
سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی سرکار صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کی زیارت سے بڑھکر انہیں کوئی شہ محبوب نہیں تھی عشق مصطفی
صلیاللہ علیہ والیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ دیدار مصطفی صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم انہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا عشق مصطفی
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ، تابعین ،
اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیوں کے واقعات سے بھری ہوئی ہیں مگر آج
کی تحریر میں ہم سب سے پہلے چاروں خلفائوں کے عشق مصفی صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کے بارے میں ہم پڑھیں گے۔ عاشقوں کے عاشق خلیفئہ اول حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ابوقحافہ ایک دفعہ سرکار صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا ابوقحافہ
کیسے آنا ہوا تو ابو قحافہ نے عرض کیا کہ اج تو ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ)
نے حد کردی ایسا کیا ہواحضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا تو ابو
قحافہ نے عرض کیا کہ مجھے تھپڑ مارا ہے وہاں پر موجود صحابہ کرام علیہم
رضوان یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ )
ایسا کرسکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ
تعالی عنہ کو بلوالیا تو اپ (رضی اللہ تعالی عنہ ) حاضر ہوگئے سرکار مدینہ
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے والد صحیح کہ رہے ہیں یہ سن
کر حضرت ابوبکر صدیق کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ان آنسوئوں سے داڑھی
مبارک تر ہوگئی فرمایا حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم انہوں نے آج پھر آپ
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئیے خدا کی قسم
میں نے تو تھپڑ مارا ہے اگر اس وقت میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں ان کی
گردن تن سے جدا کردیتا کیوں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے زیادہ
دنیا میں کوئی شہ عزیز نہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے خلاف
بات کریں اور وہ بھی میرے سامنے یہ ممکن نہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میرے والد گرامی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی
عنہ سارا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے حضور میں حاضر خدمت رہتے
اور جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر گھر تشریف لاتے تو جدائی کے یہ چند لمحے
کاٹنا بھی دشوار ہوجاتے تھے وہ ساری ساری رات تڑپتے اور بے چین رہتے ہجر و
فراق کی وجہ سے ان کے جگر سوختہ سے اس طرح آہ نکلتی جیسے کوئی چیز جل رہی
ہواور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک وہ چہرہ سرکار صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کی زیارت کا شرف حاصل نہ کرلیتے یہ ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی کا
عشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اور یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شان اور عظمت کے بدولت صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کے دائیں طرف آرام فرما ہوئے ۔
میرے محترم ور معزز پڑھنے والوں صحابہ کرام رصی اللہ عنھم اول تا آخر محبوب
خدا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اوراسی محبت کا
کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پرواہ تھی نہ مال و اولاد کی وہ دنیا کی
ہر چیز سے بڑھکر آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کو عزیز جانتے تھے آپ رضی
اللہ عنھم نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا ہے انسانی تاریخ آج تک
اس کی نظیر پیشں نہیں کرسکی اور نہ قیامت تک ہمیں ایسا عشق مصطفی صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم دیکھنے کو ملنا ممکن نظر آتا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ دوئم بھی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم میں اپنی مثال آپ تھے رات کو جب سب لوگ ارام کی غرض سے سوجاتے
تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر نکلتے کہ کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں کیوں کہ
انہیں یہ خوف خدا تھا کہ ان کے دور حکومت میں اگر ایک کتا بھی بھوکا ہوگا
تو بروز قیامت جوابدہ عمر (رضی اللہ تعالی ) کو ہونا پرےگاایک دفعہ وہ حسب
معمول رات کو گشت پر تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر میں چراغ جل رہ ہے
اور ایک بوڑھی عورت اون کاٹتے ہوئے ہجر و فراق کے کچھ اشعار پڑھ رہی تھی اس
کا ترجمہ کچھ یوں تھا کہ *محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم آپ پر آپ کے تمام
چاہنے والوں کا سلام ہو تمام متقین کا بھی سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم راتوں کو اپنے رب کی یاد میں کثیر وقت تک قیام کرتے اور سحری کے وقت
انسو بہانے والے تھے ہائے افسوس ہم سے جدا ہوگئے کاش مجھے یقین ہوجائے کہ
بروز قیامت مجھے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا قرب نصیب ہوسکے گا *حثرت
عمر فاروق رضی اللہ تعلی عنہ کو یہ اشعار سن کر بے اختیار سرکار صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کی یاد آگئی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ زارو قطار رونے لگے
آپ رضی اللہ تعالی نے بڑھیا کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا یا تو اندر سے آواز
ائی کون ہے تو فرمایامیں عمر (رضی اللہ تعالی عنہ ) ہوں تو بڑھیا نے کہا اس
وقت میرے گھر پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا کام تو آپ رضی اللہ تعالی
عنہ نے فرمایا دروازہ کھولو میں اندر آنا چاہتا ہوں تمہیے کوئی پریشانی
نہیں ہوگی اللہ تبارک وتعالی تم پر رحم فرمائے تو اس بڑھیا نے دروازہ کھولا
اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جو اشعار تم پڑھ رہی تھی وہ دوبارہ
پڑھو جب اس بڑھیا نے دوبارہ اسعار پڑھے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا
کہ اس خواہش میں مجھے بھی شامل کرلو اور دعا میں میرا نام بھی لےلو کہ اللہ
تعالی قیامت میں مجھے معاف کردے اور ہم دونوں کو سرکار صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کا پڑوس نصیب کرے یہ کہکر آپ رضی اللہ تعالی عنہ اتنا روئے کہ بیمار
ہوگئے اور چند دن تک آپ رضی اللہ تعالی عنہ عجیب کیفیت میں مبتلا رہے صحابہ
کرام آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کے لئے آتے رہے یہ تھا عشق رسول صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم صحابہ کرام کے عشق کا یہ حال تھا کہ کسی بھی شہ کی
نسبت اگر حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے ہو جاتی تو وہ اس سے بھی پیار
کرتے تھے کیوں کہ وہ نسبتوں کو ماننے والےتھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ
تعالی عنہ حج پر تشریف لے گئے طواف کیا جب آپ حجر اسود کے سامنے پہنچے تو
فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو مجھے نہ نفع پہنچا سکتا
ہے نہ نقصان لیکن تیری نسبت میرے سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے ہے کہ
تجھے انہوں نے بوسہ دیا اگر انہوں نے تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں تجھے
کبھی بوسہ نہ دیتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میں
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام بھی کسی تعرف کا محتاج
نہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے جو خاص نسبت
حاصل تھی اس کا ایک منظر اور مظاہرہ ہمیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نظر ایاجب
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اپنا سفیر بنا کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو
مکہ معظمہ بھیجا کفار اور مشرکین سے بات چیت یعنی مذاکرات کے لئے کفار مکہ
نے پابندی لگادی تھی کہ اس سال حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اور ان کے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے حضرت سیدنا
عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جب سفیر رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم بن کر
حرم مکہ پہنچے تو بتایا گیا کہ اس سال آپ حج نہیں کرسکتے تاہم رواداری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ
کیوں کہ تم آگئے ہو تو حاضری کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چاہو تو طواف
کعبہ کرسکتے ہولیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی شان بے نیازی سے کفار کی
اس پیشکش کو ٹھکرادیا کیوں کہ بغیر صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے طواف کرنا
گوارہ نہیں کیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں اس وقت تک طواف کعبہ
نہیں کروں گا جب تک میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ والیہ وسلم طواف نہیں
کرتے اپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دشمنان اسلام کو جتلا دیا کہ ہم کعبہ کو اس
لئے کعبہ مانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اسے کعبہ مانتے ہیں
اور طواف بھی اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم اس کا طواف کرتے ہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کعبہ سے اپنی جذباتی
اور دلی وابستگی کو اہمیت نہ دی حالانکہ وہ کعبہ کے دیدار کو کتنے عرصے سے
ترس رہے تھے اور ہجرت کے چھ سات سال کے بعد انہیں پہلی بار موقع ملا تھا
اگر طواف کرلیتے تو صلی اللہ علیہ والیہ وسلم منع نہ فرماتے لیکن ان کے
نزدیک سب سے زیادہ اہمیت نسبت رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی تھی جس کے
بغیر وہ کسی عمل کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم سے یہ ہی نسبت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کی بنیاد تھی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے ساتھ
تعلق عشق خودسپردگی اور وارفتگی کی اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ ایک دفعہ آپ
رضی اللہ تعالی عنہ ایک مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر گوشت کا لقمہ تناول
فرمارہے تھے کہ لوگوں نے کہا حضرت یہ دروازہ ہے یہاں سے لوگوں کا آنا جانا
ہے لوگ دیکھکر کیا کہیں گے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ مجھے
اور تو کچھ نہیں معلوم لیکن اتنا پتہ ہے کہ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم نے ایک دفعہ یہاں بیٹھکر کھانا تناول کیا تھا میں تو ان کی سنت
ادا کررہا ہوں میرے پیش نظر تو بس سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی یہ
ادا ہی تھی ایک دفعہ وضو کرنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ خود بخود
مسکرانے لگے تو کسی نے پوچھا کہ نہ کسی سے بات چیت کی پھر بھی آپ رضی اللہ
تعالی عنہ مسکرارہے ہیں تو فرمایا کہ مجھےکسی سے کیا لینا دینا بس میں نے
تو ایک دفعہ حضور صلی اللہ ولیہ والیہ وسلم کو اس طرح مسکراتے ہوئے
دیکھاتھا وہ سنت ادا کررہا ہوں کسی نے کیا خوب کہا کہ
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی
مجھے ہوش کب تھا سجود کا
تیرے نقش پا کی تلاش تھی
کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالی کانام حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کی نسبت اور عشق کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر ہم مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم کے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی بات کریں تویہ سورج
کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگاکیوں کہ اپ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ خوش
نصیبی تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی پرورش براہ راست حضور صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم نے فرمائی تھی اور بچوں میں سب سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل
ہونا بھی آپ رضی اللہ تعالی کے مقدر میں لکھا ہوا تھا قاضی عیاض رحمتہ اللہ
علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے دریافت کیا گیا کہ آپ
کو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے کتنی محبت تھی تو سیدنا علی رضی اللہ
تعالی عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم ! حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہمیں
اپنی اولاد ، اپنے اموال ، اپنی ازواج اور اپبے آبائواجداد سے بھی بڑھ کر
محبوب تھے جس طرح ایک پیاسے کو شدید ٹھنڈے پانی سے محبت ہوتی ہے اس سے بھی
بڑھکر ہمیں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے محبت تھی اور حضرت علی رضی
اللہ تعالی عنہ کے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی بات کریں تو ایک
واقعہ ہی کافی ہے حدیث مبارک میں آیا ہے کہ غزوہ خیبر کے دوران قلعہ صہباء
کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی
گود میں سر انور رکھکر آرام فرمارہے تھے عصر کا وقت تھا لیکن حضرت علی کرم
اللہ وجہہ الکریم نے ابھی نماز عصر ادا نہیں کی تھی چاہتے تو کہ دیتے کہ
سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تھوڑا توقف فرمائیں میں عصر کی نماز پڑھ
لوں پھر حاضر خدمت ہوجاتا ہوں عقل کا تقاضہ بھی یہ ہی تھا لیکن حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم پر اپنی نماز
قربان کردی جس کے نتیجے میں انہیں وہ نماز نصیب ہوئی جو کائنات انسانیت میں
کسی کو نصیب نہ ہوئی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تو کب سے موقع کی متلاشی
تھے کہ انہیں سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی خدمت کا موقع ملے اور قرب
نصیب ہو تو وہ یہ موقع کیسے ضائع کردیتے چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا
اور سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے سر انور کے لئے اپنی گود بچھادی اور
آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اپنا سر مبارک رکھا اور آرام کرنے لگے نہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا نہ سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
نے پوچھا کہ نماز عصر ادا کی یا نہیں ایک طرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ
اپنی خوش بختی کے عالم میں آفتاب نبوت کو تکتے جارہے تھے تو دوسری طرف
افتاب اپنی منزلیں طہ کرتا ہوا غروب ہونے لگا تھا جب ڈوبتے آفتاب کو دیکھا
تو چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ رضی اللہ تعالی کی ایک عجیب کیفیت
طاری ہوگئی کبھی سورج کو ڈوبتے دیکھتے تو کبھی نگاہ رخ زیبا پرہوتی جب آپ
رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ سورج غروب ہوگیا تو آپ رضی اللہ تعالی کی
آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے اسی اثناء میں حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم بیدار ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے دیکھا حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم پریشانی کے عالم میں محو گریہ ہیں پوچھا کیا بات ہے عرض کیا
آقا ! میری نماز عصر رہ گئی تو صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا قضا پڑھ
لو تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سوالیہ نظروں سے صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کے چہرہ اقدس کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سمجھ گئے کہ علی رضی
اللہ تعالی عنہ نماز قضا نہیں بلکہ ادا پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ تبارک و تعالی بارگاہ میں دعا کے
لئے ہاتھ بلند کرلئے اور عرض کیا کہ اے اللہ (تبارک وتعالی )علی تیری اور
تیرے محبوب کی اطاعت میں مصروف تھا کہ اس کی نماز قضا ہوگئی بس تو سورج کو
واپس پلٹا دے تاکہ اس کی نماز ادا ہوجائے ۔
میرے محترم پڑھنے والوں نماز وقت پر پڑھنا اللہ تبارک تعالی کی اطاعت ہے
لیکن یہاں تو نماز قضا ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم اس قضا کو اللہ تبارک وتعا لی کی اطاعت قرار دے رہے تھے اب چاہئے تو
یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم فرماتے کہ اےاللہ تبارک وتعالی علی
(کرم اللہ وجہہ الکریم ) تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا لیکن اس کی عصر
کی نماز قضا ہوگئی تو سورج کو واپس پلٹا دے تاکہ اس کی نماز ادا ہواپ صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کی اس بات نے اطاعت کا مفہوم واضح کردیا کی وہ یہ کہ
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی خدمت اور اطاعت اللہ تبارک وتعالی کی اطاعت ہے
چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی
خدمت میں مصروف تھے لہذہ ان کی قضا نماز بھی اطاعت الہی قرار پائی حدیث
مبارک میں مزکور ہے کہ جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے دعا کے
لئے ہاتھ بلند کئے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح پلٹا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو یہ تو
ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جسے
کھینچنے سے سورج خودبخود سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس کھنچا آرہا
ہو یہاں تک کہ سورج عین عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ
الکریم نے نماز عصر ادا کی یہ واقعہ مختلف کتابوں میں مختلف مفسرین نے بڑی
تفصیل اور واضح انداز میں بیان کیا ہے کیونکہ آغوش نبی صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم میں پرورش پانے والے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان اور عشق رسول
صلی اللہ علیہ والیہ کی بھی کوئی نظیر اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے
بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ بیان کرنا بہت
مشکل ہے اور یہ ہی نہیں اولیاء کرام اور بزرگان دین کی بھی ایک بڑی لمبی
فہرست ہے جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میں اپنا سب کچھ قربان
کرنے لے لئے ہر وقت تیار تھے آج کی اس تحریر میں چاروں خلفائے راشدین کے
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے بارے میں مختصر بتانے کی میں نے
کوشش کی ہے اور آئندہ بھی کوشش کروں گا کہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کے بارے میں اپ کو مزید معلومات فراہم کرسکوں اللہ تبارک وتعالی سے
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں بھی وہ ہی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم عطا کرے جو اس نے اپنے خاص بندوں کو عطا کی اور اللہ تبارک و تعالی
مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو اسے پڑھکر اس پر عمل کرنےکی توفیق عطا
فرمائے ۔
آمین آمین بجاء النبی الکریم
|