مسلمانو! شِرک سے بچو

انسان بزدل اتنا کہ اندھیرے سے ڈر جاتا ہے لیکن نڈر اتنا ہے کہ اپنے خالق اللہ کا انکار بھی کرسکتا ہے یاپھر اللہ کیساتھ کسی کو شریک بھی بنا سکتا ہے۔انسان کس طرح اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر بتوں، درختوں، سورج ، چاند، ستارے، آگ ، زندہ اور مردہ انسان کو اللہ کا شریک بنا کر اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مان لیتا ہے اور پختہ عقیدہ بھی قائم کرلیتا ہے۔ جبکہ اس انسان کی رہنمائی کے لئے آسمانی کتابوں، صحیفوں اور انبیاء کرام ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور انکے جانثار صحابہ کرام کی واضح تعلیمات موجود ہوں۔میں اکثر سوچتا تھا کہ انسان عقیدہ توحید سےہٹ کر شرکیہ عقائد کس طرح اپنا سکتا ہے۔عقیدہ توحید اور کبیرہ گناہ شرک پر بہت کچھ لکھا گیا، بہت کچھ بولا گیا۔اس موضوع پر راقم کے انتہائی محترم دوست جناب محمد ندیم مغل صاحب جو سعودی عرب میں مقیم ہیں کیساتھ اک غیر رسمی ملاقات میں انہوں نے سادہ سی مثال کیساتھ سمجھانے کی کوشش کی۔اور نیکی اور بدی کے ان دونوں پہلوئوں پرروشنی ڈالی۔ندیم مغل صاحب نےکہا کہ بتوں کی پوچا کرنے والے ہندوؤں کو چھوڑیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی حرکات کو ملاحظہ فرمائیں۔انہوں ایک واقعہ بتایا کہ ایک عورت جس کے ہاں اولاد جیسی عظیم نعمت نہ تھی۔ سسرالیوں کی جانب سے دس سال تک اسکو مزارات پر جاکر اولاد کے لئے منتیں مانگنے اور صاحبِ قبر سے دعا کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا رہا۔ آخرکار شوہر کی جانب سے طلاق کی دھمکی پر گھٹنے ٹیک بیٹھی اوراک مزار پر حاضری دے دی۔ قبر پر جا کر اولاد مانگنے کی بجائے اپنے پختہ عقیدہ توحید کی بدولت زار وقطار روتی رہی۔سسرالی بھی مطمئن ہو گئے ۔اور خاتون کو بھی اِطمینان تھا کہ کم از کم اس نے صاحب مزار سے کچھ مانگا نہیں بس وہی ظاہری اعمال ادا کئے جو سسرال والوں کو نظر آ جائیں مگر ربّ کو اس کا مزید امتحان مقصُود تھا۔اللہ کریم کے کرم سے خاتون کی گود بھر آئی۔ اب ساس ایک جُوتا اٹھاتی اور ایک رکھتی کہ تم نے اپنی توحید کے چکر میں میرے بیٹے کو 10 سال اولاد سے محروم رکھا۔وہ لاکھ قسمیں کھاتی کہ یہ اللہ نے دیا ہے نہ کہ صاحب مزار نے۔ خاتون نے لاکھ مرتبہ اپنی ساس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے خاوند کی طلاق والی دھمکی کی بناء پر وہ مزار پر چلی تو گئی مگراس نے صاحب مزار سے کچھ مانگاہی نہ تھا۔مگر ساس بضد رہی کہ اگر اللہ نے یہ اولاد دی ہے تو 10 سال پہلے کیوں اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔اس خاتون نے کسی اللہ والے صحیح العقیدہ عالم دین کے سامنے یہ معاملہ رکھا تو صاحب علم نیک شخص نے خاتون سے کہا کہ اپنی ساس سے ملاقات کا بندوبست کروائے۔دونوں ساس بہو اس بزرگ کے روبرو پیش ہوتی ہیں۔ بزرگ نے خاتون کی ساس سے سوال پوچھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کس بابے نے دیا تھا؟ ساس نے کہا کہ ان کو بابا جی نے نہیں بلکہ اللہ نے دیا تھا۔بزرگ نے اگلاسوال پوچھا کہ اگر ان کو اللہ نے دیا تھا تو پھر 50 سال پہلے جوانی ہی میں کیوں نہیں دے دیا؟ اور زکریا علیہ السلام کو بھی فریادوں کے بعد بڑھاپے میں یحییٰ علیہ السلام کیوں دیا جوانی ہی میں کیوں نہیں دے دیا؟۔اس عالم دین نے خاتون کی ساس سے کہا کہ اللہ وہ عظیم ہستی ہے جس سے کبھی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی کہ اب دیا ہے تو تب کیوں نہیں دیا تھا ۔درج بالا مثال کسی بھی غفلت کے شکار شخص کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اللہ کے برگزیدہ انبیاء کرام اور خاتم النبین حضرت محمد مصفطیٰﷺ اور آپکی اہل بیت اور آپکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی سیرت تو ایسی ہے کہ ان عظیم ہستیوں نےاپنی تکلیفوں اور مشکلات میں اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے دعا نہ کی اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے دعا مانگنے کی تلقین فرمائی۔برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان قریبا ایک ہزار سال تک ہندوؤں کے ساتھ باہم اکٹھے رہے ہیں۔ لہذا انکے درمیان بہت سی مشترکہ عادات ، رسومات اور عقائد رائج ہوچکےہیں۔ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جو ہر روز دن میں پانچ وقت نماز میں یہ دعا بھی مانگتے ہیں" ایا ک نعبدو وایاک نستعین" (اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں)مگر دوسری طرف قبروں پر جاکر غیر اللہ کے سامنےاپنی حاجت کے لئے دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو اپنے اپنے مسلک کے چند فسادی افراد کی شعلہ بیان تقریروں (جس میں مخالف مسلک کو جہنمی قراد دینے والی باتوں) کو سننے کی بجائے صحیح العقیدہ علماء کرام سےقرآن مجید کو ترجمعہ و تفسیر کیساتھ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ہم مسلمان ہدایت حاصل کرکے شرک جیسے عظیم گناہ سے بچ سکیں۔یاد رکھو زندگی ، موت، رزق، اولاد کے وقت کا تعین وہ رب کرتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا رب ہے۔سورۃ یسین میں ارشاد ہے کہ " وہ (اللہ)جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا (کافی ہے)کہ ہوجا ، وہ اسی وقت ہوجاتی ہے"۔میری نظر میں بروز آخرت ہندو اوردیگر غیر مسلم افراد کی نسبت اک مسلمان کی زیادہ پکڑ ہونے کا امکان ہے کیونکہ غیر مسلم شخص اللہ کے حضور یہ عذر پیش کرنے کی کوشش کرے گا کہ اے اللہ میں تو پید ا ہی غیر مسلم ہوا، توحید، رسالت و دیگر عقائد بارے جاننے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی میری رہنمائی کے لئے کسی نے مجھے بتایا۔دوسری طرف اک مسلمان شرکیہ عقائد اور شرکیہ اعمال بارے کیا عذر پیش کرے گا جبکہ یہ شخص پیدا ہی مسلمان ہوا اور اسکی رہنمائی کے لئے قرآن و حدیث ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی تعلیمات موجود تھیں ۔مسلمانو! شرک ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ جسکی معافی کسی صورت ممکن نہیں۔اللہ کریم ہم سب کوہدایت نصیب فرمائے اور عقیدہ توحید پر ثابت قدم رہنےکی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 116513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.