ماں دن میں ڈيڑھ سو روٹیاں پکاتی تھی، سخت محنت اور لالو کھیت سے آسٹریلیا تک کا سفر جو بتائے‎ کہ دنیا میں ناممکن کچھ نہیں

image
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel
 
ہمت مرداں مدد خدا یہ مقولہ تو سب ہی نے سنا ہوگا اور اس دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہم نے دیکھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور حوصلے کے بل بوتے پر اس دنیا میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو کہ آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتی ہیں ایسے ہی ایک خاندان کی مثال ہم آج آپ سے شئیر کریں گے-
 
چنے چھولے والا شہزاد
کراچی کی قدیم ترین آبادی لالو کھیت کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ لالوکھیت کا علاقہ وہ علاقہ تھا جہاں پر قیام پاکستان کے بعد مہاجرین نے پناہ لی اور اس علاقے کو آباد کیا-
 
سال 1982 میں شہزاد نامی ایک شخص بھی اپنے والد کے ساتھ لالو کھیت آیا اور اس کے والد نے وہاں پر چھولوں کے سالن کے ایک اسٹال کا آغاز کیا جس کو ان کے بیٹے شہزاد نے ان کے بعد سنبھالا-
 
شہزاد کی شادی کے بعد جب بچوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر پڑی تو اس کے اخراجات بھی بڑھنے لگے جن کی تکمیل ایک چھوٹے سے چھولوں کے اسٹال کے ذریعے کرنا کافی مشکل ہو جاتا تھا-
 
image
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel
 
زندگی کے ہمسفر کا ساتھ
شہزاد کی ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس کی بیوی نے اس کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ کیا۔ شہزاد کی بیوی تعلیم اور ہنر دونوں معاملات میں نابلد تھی مگر اس عورت کا حوصلہ بلند تھا-
 
اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا اور صبح بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد لالوکھیت نو نمبر پر واقع ایک فیکٹری میں نہ صرف دبکے کا کام شروع کرنا شروع کر دیا بلکہ صبح نو بجے سے دو بجے تک کام سیکھتی اور فیکٹری میں کام کرتی اور دو بجے کے بعد واپس آنے کے بعد بچوں کو کھانا دینے کے بعد اپنے چھوٹے سے گھر میں بیٹھ کر شہزاد کے اسٹال کے لیے چپاتیاں پکانا شروع کر دیتی اور دن بھر میں ڈيڑھ سو سے دو سو تک روٹیاں پکاتی-
 
شہزاد کا بیٹا شہباز ایک مثال
اگرچہ یہ دونوں میاں بیوی تعلیم کے لحاظ سے غیر تعلیم یافتہ تھے مگر اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ ان کی بقا اسی صورت میں ہے اگر ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں-
 
اس وجہ سے انہوں نے بچوں کی تعلیم کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا مگر ان کے بیٹے شہباز کے معاملے میں ان کو اس وقت مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے بیٹے شہباز کی آنکھ میں پیدائشی طور پر موتیا تھا جس کے علاج کے لیے جب انہوں نے آپریشن کروایا تو ڈاکٹروں کی غلطی کی وجہ سے وہ اپنی ایک آنکھ کھو بیٹھا-
 
اسکول میں بچوں کی تنقید
شہباز کا اپنے اسکول کے حوالے سے یہ کہنا تھا کہ اسکول میں اسے بچوں کی جانب سے شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا- مگر اس نے اپنے والدین کی کوششوں کی مدد سے ہمت نہ ہاری اور انٹر تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے روائتی تعلیم کو خیرآباد کہہ کر ایک کال سنٹر میں نوکری شروع کر دی-
 
مگر نوکری کے دوران بھی اس نے سیکھنے کے عمل کو نہ چھوڑا اور اپنے سینئير ساتھیوں سے ایس ای او کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی-
 
image
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel
 
لالو کھیت کا لڑکا دبئی تک
اس موقع پر شہباز کا کہنا تھا کہ اس کو اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر بغیر کسی ڈگری کے دبئی میں نوکری کا موقع ملا جہاں پر چار سال تک اس نے کام کیا اور سیکھنے کا عمل جاری رکھا- یہاں تک کہ ایک دن اس کو اپنے کام کی بنیاد پر آسٹریلیا کے شہر ملبورن سے نوکری کی آفر ملی اور وہ دبئی سے آسٹریلیا جا پہنچا-
 
لالو کھیت سے ملبورن
شہباز جس کی زندگی کا سفر لالو کھیت سے شروع ہوا تھا جس کے پاس صرف انٹر تک کی تعلیمی ڈگری تھی جس کی ایک آنکھ میں بینائی بھی نہ تھی آج آسٹریلیا کی ایک بڑی کمپنی میں مینیجر کی پوسٹ پر کام کر رہا ہے-
 
ایسا صرف اور صرف اس کے والدین کی محنت اور اس کے جذبے سے ہی ممکن ہو سکا اس کی زندگی ان تمام افراد کے لیے ایک مثال ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر باپ چھولوں کا ٹھیلا لگاتا ہے تو اس کا بیٹا بھی یہی کرے گا-
 
لالو کھیت میں آج بھی شہزاد کا چھولوں کا ٹھیلا موجود ہے جو کہ اپنے بیٹے کی کامیابی کے باوجود محنت کرنے سے نہیں چوک رہا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: