|
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel |
|
ہمت مرداں مدد خدا یہ مقولہ تو سب ہی نے سنا ہوگا اور اس
دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہم نے دیکھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور حوصلے کے
بل بوتے پر اس دنیا میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو کہ آنے والی نسلوں کے
لیے مثال بن جاتی ہیں ایسے ہی ایک خاندان کی مثال ہم آج آپ سے شئیر کریں
گے- |
|
چنے چھولے
والا شہزاد |
کراچی کی قدیم ترین آبادی لالو کھیت کا نام
کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ لالوکھیت کا علاقہ وہ علاقہ تھا جہاں پر قیام
پاکستان کے بعد مہاجرین نے پناہ لی اور اس علاقے کو آباد کیا- |
|
سال 1982 میں شہزاد نامی ایک شخص بھی اپنے
والد کے ساتھ لالو کھیت آیا اور اس کے والد نے وہاں پر چھولوں کے سالن کے
ایک اسٹال کا آغاز کیا جس کو ان کے بیٹے شہزاد نے ان کے بعد سنبھالا- |
|
شہزاد کی شادی کے بعد جب بچوں کی ذمہ داری
اس کے کاندھوں پر پڑی تو اس کے اخراجات بھی بڑھنے لگے جن کی تکمیل ایک
چھوٹے سے چھولوں کے اسٹال کے ذریعے کرنا کافی مشکل ہو جاتا تھا- |
|
|
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel |
|
زندگی کے ہمسفر کا ساتھ
|
شہزاد کی ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس کی بیوی نے اس کا
ساتھ نبھانے کا فیصلہ کیا۔ شہزاد کی بیوی تعلیم اور ہنر دونوں معاملات میں
نابلد تھی مگر اس عورت کا حوصلہ بلند تھا- |
|
اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا اور صبح
بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد لالوکھیت نو نمبر پر واقع ایک فیکٹری میں نہ
صرف دبکے کا کام شروع کرنا شروع کر دیا بلکہ صبح نو بجے سے دو بجے تک کام
سیکھتی اور فیکٹری میں کام کرتی اور دو بجے کے بعد واپس آنے کے بعد بچوں کو
کھانا دینے کے بعد اپنے چھوٹے سے گھر میں بیٹھ کر شہزاد کے اسٹال کے لیے
چپاتیاں پکانا شروع کر دیتی اور دن بھر میں ڈيڑھ سو سے دو سو تک روٹیاں
پکاتی- |
|
شہزاد کا بیٹا شہباز ایک
مثال |
اگرچہ یہ دونوں میاں بیوی تعلیم کے لحاظ سے غیر تعلیم
یافتہ تھے مگر اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ ان کی بقا اسی صورت
میں ہے اگر ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں- |
|
اس وجہ سے انہوں نے بچوں کی تعلیم کے معاملے میں کسی قسم
کا سمجھوتہ نہیں کیا مگر ان کے بیٹے شہباز کے معاملے میں ان کو اس وقت
مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے بیٹے شہباز کی آنکھ میں پیدائشی طور پر
موتیا تھا جس کے علاج کے لیے جب انہوں نے آپریشن کروایا تو ڈاکٹروں کی غلطی
کی وجہ سے وہ اپنی ایک آنکھ کھو بیٹھا- |
|
اسکول میں بچوں کی تنقید |
شہباز کا اپنے اسکول کے حوالے سے یہ کہنا تھا کہ اسکول
میں اسے بچوں کی جانب سے شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا- مگر اس نے
اپنے والدین کی کوششوں کی مدد سے ہمت نہ ہاری اور انٹر تک تعلیم حاصل کی جس
کے بعد والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے روائتی تعلیم کو خیرآباد کہہ کر ایک
کال سنٹر میں نوکری شروع کر دی- |
|
مگر نوکری کے دوران بھی اس نے سیکھنے کے عمل کو نہ چھوڑا
اور اپنے سینئير ساتھیوں سے ایس ای او کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی- |
|
|
Pic: courtesy by Junaid Akram Channel |
|
لالو کھیت کا
لڑکا دبئی تک |
اس موقع پر شہباز کا کہنا تھا کہ اس کو اس کی
صلاحیتوں کی بنیاد پر بغیر کسی ڈگری کے دبئی میں نوکری کا موقع ملا جہاں پر
چار سال تک اس نے کام کیا اور سیکھنے کا عمل جاری رکھا- یہاں تک کہ ایک دن
اس کو اپنے کام کی بنیاد پر آسٹریلیا کے شہر ملبورن سے نوکری کی آفر ملی
اور وہ دبئی سے آسٹریلیا جا پہنچا- |
|
لالو کھیت سے
ملبورن |
شہباز جس کی زندگی کا سفر لالو کھیت سے شروع
ہوا تھا جس کے پاس صرف انٹر تک کی تعلیمی ڈگری تھی جس کی ایک آنکھ میں
بینائی بھی نہ تھی آج آسٹریلیا کی ایک بڑی کمپنی میں مینیجر کی پوسٹ پر کام
کر رہا ہے- |
|
ایسا صرف اور صرف اس کے والدین کی محنت اور اس
کے جذبے سے ہی ممکن ہو سکا اس کی زندگی ان تمام افراد کے لیے ایک مثال ہے
جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر باپ چھولوں کا ٹھیلا لگاتا ہے تو اس کا بیٹا بھی
یہی کرے گا- |
|
لالو کھیت میں آج بھی شہزاد کا چھولوں کا ٹھیلا
موجود ہے جو کہ اپنے بیٹے کی کامیابی کے باوجود محنت کرنے سے نہیں چوک رہا
ہے- |