پاکستان کو بنے ہوئے 75سال ہو چکے ہیں جنہوں نے
بنایا وہ آج ہم میں نہیں جنہوں نے بنتے دیکھا وہ بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں
لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے پاکستان میں قیادت سے لیکر اداروں
تک کا فقدان رہا کسی پر ہم خوش ہیں نہ ہی اطمینان ہے 34سے زائد وزیر اور
پھر انکے ماتحت ادارے سب کے سب نکمے جو وقت کے ساتھ ساتھ تباہ بھی ہوئے اور
برباد بھی بعض ادارے تو بانجھ پن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور ان میں
بیٹھے ہوئے افراد بھول کر بھی کوئی اچھا کام کرنے کو تیار نہیں عوام کی تو
بات رہنے دیں تقریبا 40سے زائد اداروں میں کام کرنے والوں سے ہی انکی
کارکردگی کے بارے میں پوچھ لیں توسوائے خواری کے اور کچھ بھی انکے پلے نہ
ہوگا ہاں مگر ایک ادارہ ایسا ضرور ہے جسکے بارے میں ہم بڑے فخر اور مان کے
ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے صرف 40سال میں تمام اداروں کو نہ صرف پیچھے
چھوڑ دیابلکہ انکا قبلہ بھی درست رکھا ہوا ہے میری مراد وفاقی محتسب سے ہے
جو اس وقت پاکستان کے تمام اداروں سے عوامی خدمت میں بہت آگے نکل چکا ہے
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر یہ ادارہ معرض وجود میں نہ آتا تو آج
غریب لوگوں کو انصاف کا حصول ناممکن ہوتا یہ بن گیا تو ہمیں شکر ادا کرنا
چاہیے کہ پاکستان میں غریب لوگوں کی بھی کہیں بات تسلی اور تحمل سے مفت سنی
جاتی ہے اور انکی شکایت کے ازالے تک اس ادارے میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی سکون
سے نہیں بیٹھتے پا کستان جنو بی ایشیا ء کے ان چند مما لک میں شا مل ہے
جہاں سب سے پہلے وفاقی محتسب کے ادارے کی بنیا د رکھی گئی 24 جنوری1983 کو
صدارتی فرمان کے تحت معر ض وجود میں آ نے والے اس ادارے نے 8اگست1983 کو
باقاعدہ کام شر وع کیا تھا اس ادارے کے قیام کابنیادی مقصد وفاقی حکومت کے
تحت چلنے والے سرکاری اداروں یا اس کے ملا زمین کے ہا تھوں انتظا می زیا
دتیوں، امتیا زی سلوک، استحصال، غفلت اور نا اہلی کے خلاف عوام الناس کی
شکایات کا ازالہ کرنا ہے خاص طور پر معاشرے کے پسے ہوئے وہ لوگ جن کی کہیں
شنوائی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ عدالتوں اور وکلاء کے بھاری اخراجات برداشت
کرسکتے ہیں پاکستان کے کسی بھی شہر کا رہائشی سادہ کاغذ پر ایک درخواست لکھ
کر وفاقی محتسب کو بھجوادے تو اس پر بلا تا خیر کارروائی شروع ہوجاتی ہے
اور اگلے روز شکا یت کنند ہ کو اس کے شکا یت نمبر اور تا ریخ سما عت سے آ
گا ہ کر دیا جا تا ہے چا لیس سال کے اس سفر کے دوران یہ ادارہ اپنی کا رکر
دگی اور افا دیت میں اضا فے کے ساتھ ساتھ معیار اور مقدا ردونوں حوا لوں سے
مثبت رفتار سے آ گے بڑھتا رہا ہے بنیا دی طور پر یہ غر یب آ دمی کی عدا لت
ہے جہاں نہ وکیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی شکا یت کنند گان کو کو ئی فیس ادا
کر نا پڑتی ہے اور ساٹھ دن میں ہر شکا یت کا فیصلہ کر دیا جا تا ہے اپنے آ
غا ز سے لے کر آج تک یہ ادارہ تقر یباً 19 لا کھ شکایت کنند گان کو مفت اور
بروقت انصاف فرا ہم کر چکا ہے 1983ء میں پہلے وفاقی محتسب سر دار محمد
اقبال سے لے کر مو جودہ وفاقی محتسب اعجاز احمد قر یشی تک یہ ادارہ12 سر
برا ہ دیکھ چکا ہے جسٹس (ر) سردار محمد اقبال چو نکہ پہلے وفاقی محتسب تھے
لہذا انہوں نے اس ادارے کے خد وخال بنا نے اور سر کا ری اداروں پر اس کی رٹ
قا ئم کر نے کے لئے بہت کام کیا وفاقی محتسب کے قیام کا صدا رتی حکم نا مہ
بھی ان کا ہی تیار کر دہ تھا 2013 تک وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ1983 کے صدا
رتی حکم نمبر(1) کے تحت کام کر تا رہا اس دوران بعض اوقات پیچید ہ کیس سا
لہا سال تک بھی چلتے رہے تو 2013 میں وفاقی محتسب محمد سلمان فا روقی کے
دور میں قانون میں کچھ ترا میم کی گئیں اور فیصلے کے لئے ساٹھ دن کی مد ت
مقرر کر دی گئی اسی دوران وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ کے سر وس رولز بھی بنائے
گئے سلمان فا روقی نے حکو متی اداروں کے نظام کی اصلا ح کے لئے متعدد
کمیٹیاں بھی بنا ئیں جنہوں نے بہت ہی مفید اور قا بل عمل سفارشات پر مبنی
جا مع رپورٹیں تیار کیں ان کے بعد آ نے والے وفاقی محتسب سید طا ہر شہباز
نے کام کو مز ید آ گے بڑھایاجسکے بعد سا لا نہ فیصلوں کی تعداد ایک لا کھ
سے تجا وز کر گئی بلکہ کمیٹیوں کی رپو رٹوں کی سفارشات پر عملد رآمد میں
بھی خا صی پیش رفت ہوئی مو جودہ وفاقی محتسب اعجاز احمد قر یشی کا کمال یہ
ہے کہ انہوں نے اس محکمے کو واقعی ایک عوامی محکمہ بنا دیاکیونکہ وہ انتظا
می امور کا وسیع تجر بہ رکھتے تھے ان کے چا رج سنبھا لنے کے بعد پہلے
سال2022 کے دوران ہی شکا یات کی تعداد ایک لاکھ64 ہزار174 تک پہنچ گئی جن
میں سے157,770 کے فیصلے بھی ہو گئے جو کہ سال2021ء کے مقابلے میں 49 فیصد
زیا دہ اور وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کی تاریخ میں کسی ایک سال میں موصول ہو نے
والی شکا یات کی سب سے زیادہ تعداد ہے لوگوں کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور
فیصلوں کے جلد ہونے کے باعث اس ادارے کی مقبولیت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا
جسکی بڑی وجہ وفاقی محتسب اعجاز احمد قر یشی کی وہ نئی پا لیسیاں اور اقدا
مات تھے جو انہوں نے 27 دسمبر2021 کو وفاقی محتسب کا حلف لینے کے فوراً بعد
اٹھائے تب سے لیکر اب تک عوامی خدمت کا ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو رکنے
کا نام نہیں لے رہا وفاقی محتسب کو حقیقی معنوں میں مصور پاکستان علامہ
اقبال کا خواب اور قائد اعظم کی تعبیر کہہ سکتے ہیں جسے ممکن بنایا اعجاز
احمد قریشی اور انکی ٹیم نے کاش ہمارے باقی کے ادارے بھی اسی طرح کے بن
جائیں یا ان اداروں میں ایک ایک اعجاز قریشی آجائے توپھر ہم اس پاکستان میں
داخل ہو سکیں گے جسکے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دی وفاقی محتسب اب
وہ ادارہ بن چکا ہے جہاں پاکستان کے غریب لوگوں کی دم توڑتی خواہشیں ایک
بار پھر نئے سرے سے جوان ہو جاتی ہیں وفاقی محتسب نے اپنے پاس جو خوبصورت
لوگوں کا گلدستہ رکھا ہوا ہے اس میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی ایک
خوبصورت پھول ہے جسکی مہک سے پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی بھی لطف
اندوز ہورہے ہیں ۔
|