تعزیّتی ریفرنس!

والد کی جدایٔ۔ حاجی سرور حسین ۔ ایک عہد ساز شخصیت (1944-2023)

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خودبھی وہ جلتا رہا۔
میں نے دیکھاہے ایک فرشتہ باپ کی پر چھائی میں۔
خیالات اور الفاظ جتنے بھی حسین بامعنی اور احترام سے بھرے ہوے ہوں والد کی جدائی کا غم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا او ر درد دل کی وضاحت ہر ایک کے لیے نا ممکن ہو جاتی ہے۔دل میں ایک غبار اٹھتاہے پھر بھی اسے کا غذپر منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے زندگی چیزوں اورسہولتوں کا نام نہیں بلکہ احساسات ،جذبات اور الجھنوں کا نام ہے ۔اگرچہ زندگی بہت کچھ پاکرکھونے کا نام ہے مگر جذبات والد کی جدائی پر آنکھوں کو پانی پانی کر دیتے ہیں،زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔سال نو کا پہلا سورج قرب بن کر طلوع ہوا۔ طبیعت بوجھل پن کا شکار اور دل مضطرب تھا۔ والدصاحب فیصل آباد کے مقامی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ 2 جنوری کی علی الصبح 5بج کر 19منٹ پر بڑے بھائی حافظ محمد شاہد کی کال موصول ہوئی اور صرف میں یہ سن سکا کہ سلمان جلدی آجاؤ اور پھر ہچکی بندھ گئی۔میرے والد صاحب دنیاوی سفر ختم کر کے آخرت کے سفر پرروانہ ہوچکے تھے (انا للّہ وانا الیہ راجعون)۔ موت کا فرشتہ انہیں اپنے ساتھ تہجد کے وقت لے گیا۔میرا غالب گمان ہے کہ والد صاحب نے جوکہ اسپتال میں غنودگی کے عالم میں تھے ۔یقینا دو نفل تہجد کے اداکیے ہوں گے۔والد صاحب (حاجی سرور حسین)کو اس دنیا سے گزرے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں۔آج جب پیچھے مڑکردیکھتا ہوں تو اپنے والد گرامی کی تمام تر جدوجہد میرے سامنے ہے۔ایک پہاڑ جیسا بلند حو صلہ رکھنے والا انسان دنیاوی زندگی سے ماورا دین کی تر غیب اور تعلیم میں مگن زندگی گزارکراس دارفانی سے رخصت ہوا ہمیشہ انکو قرآن ،نماز اور سنت کی بات کرتے دیکھا /سنااور اس پر عمل کرتے رہے۔والد گرامی جھنگ شہر؍سٹی کی نامورمذہبی شخصیت تھے۔اپنی ساری زندگی درس و تدریس جیسے نبیوں کے عظیم پیشہ سے وابستہ رہے۔آج انکے ہزاروں طلباء و طالبات نہ صرف ملک پاکستان بلکہ غیر ملک میں بھی کسی نہ کسی طرح معاشرے کی فلاح وبہبودمیں اپنا کلیدی کردار کررہے ہیں،معمولات زندگی بہت سادہ تھے۔قرآن کریم کی تلاوت / نماز وں کی باقاعدگی معارف القر آن تفسیرکا مطالعہ انکااہم مشغلہ تھے۔

ان سے جب بھی بات ہوتی تو زندگی گزانے کے رہنمااصول، صبر،تحمل، حوصلہ اور برداشت کی تلقین کرتے۔اپنی ساری زندگی تبلیغ کے کام میں لکھوا چھوڑی تھی۔حاجی عبدالوہاب صاحب مرحوم اور مولانا جمشیدخان مرحوم جیسی دینی شخصیات سے خصوصی انس رکھتے تھے،ان شخصیات کا انکی زندگی پر اتنا گہرااثر تھاکہ اپنے ساتوں بیٹوں کو حافظ قرآن بنایا۔ساتھ میں دین کے حلقے، گلی کوچوں میں گشت، شب جمعہ میں حاضری انکے معمولات زندگی میں شامل تھا۔ سردی ہو یا گرمی خزاں ہوکے بہار تہجد میں اٹھنا اور سب بچوں کے نام الگ الگ لیکردعائیں کرنا انکا معمول تھا۔روزانہ صد قہ و خیرات کرنا۔غریبوں ، ناداروں،مفلسوں اور رشتہ داروں کی خاموشی سے مدد کرنا اپنا فرض عین سمجھتے تھے،دین کی خدمت کو اپنا شعار بنارکھا تھا۔ 1994 ؁میں دین کی خدمت کے براعظم افریقہ کے تمام ممالک کا پیدل سفرکیا، وہیں سے پیدل حجاز مقدس پہنچے اور حج کی سعادت حاصل کی ۔ 7ماہ دین کی تبلیغ کے سلسلے میں افغانستان کا سفر کیا اور 2004 میں بنگلہ دیش بھی گئے، دین کی تبلیغ کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم کو مسلمان کیا اور ہزار وں کی تعداد میں لوگوں کا دین کی تعلیمات دیں،درس دتدریس کے دوران کچھ عرصہ جھنگ کے علاقہ پکّے والا میں بطور ایس ایس ٹی ٹیچر تعینات رہے پھر گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ سٹی میں تبادلہ ہو گیا۔قارییٔن کی یاد دہانی کے لیے لکھتا چلوں، یہ وہی اسکول ہے جہاں سے ڈاکٹر عبدالسلام جسے نوبل انعام یافتہ سا ئنس دان علم کے زیور سے آراستہ ہوئے۔تقریباً30 سال اس اداے میں ایس ایس ٹی ٹیچر کے عہدے پر رہتے ہوئے اردو، اسلامیات اور انگریزی جسے اہم مضامین خوب دل جمعی کے ساتھ پڑھاتے رہے ۔2004 میں ریٹائرمنٹ کے بعد سے دین کی تبلیغ میں زیادہ مگن ہوگئے،انکا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور وسیع حلقہ احباب اسی شخص کا ہوتا ہے جومعاملات زندگی کو انتہائی احسن طریقہ سے انجام دے۔ مجھے انکی زندگی کبھی کبھی ویل پروگرامڈ (Well Programmed)لگتی تھی۔بااصول ،باوقار اور پررعب شخصیت کے حاصل والد گرامی کو اﷲ رب العزّت نے اپنے دین اور دنیا کی محنت کیلئے چن لیا تھا،زندگی کو بہت احسن طر یقہ سے گزارا بہت ہی بیلنسڈ (balanced)زندگی گزاری۔اپنے بچوں کو نہ صرف حافظ قرآن بنایا بلکہ دنیاوی تعلیم بھی دی۔ Balanced life گزارنے کے حوالے سے ہمیشہ نصیحت کرتے تھے کہ، بیٹا! نماز اور قرآن کو اپنا شعار بناؤ ,اﷲ دنیاوی معاملات میں تمہاری مدد کرے گا۔اچھے لوگوں کی صحبت میں رہو، برے لوگوں سے بچو ۔ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرو۔ حلال کماؤ، حرام سے بچو اپنی زندگی میں جتناہوسکے سادگی اپناؤ۔
ان سے کبھی کچھ ڈیمانڈ کرتا تو مجھے اقبال کا یہ شعر سناتے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر۔

میں آج جہاں بھی کھڑاہوں اور جو کچھ، لکھنا، پڑھنا، بولنا سکھا ہے اس میں میرے والد گرامی کا بہت اثر ہے ۔انہوں نے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ شخصی ٹکراؤ میں مت الجھنا کیونکہ یہ عمل انسانی شخصیت کو کمزور کرتا ہے،میری زندگی کا اہم سرمایہ باقی بہن بھائیوں کی طرح ماں اور باپ کی شفقت تھی،والد گرامی کے انتقال کے بعد والدہ محترمہ کی لمبی زندگی کے لئے دعاگوہوں۔یقینا والد گرامی کی موت ایک سانحے سے کم نہیں۔اﷲرب العزت سے دعا گوہوں کہ انکی قبرتاحدنگاہ وسیع ہو۔جنت کے باغوں میں باغ ہوں اﷲ انکواپنے مقرب بندوں میں شامل فرما۔قیامت کے دن انکو اپنے وعدے کے مطابق سونے کا تاج پہنانا اور انکو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کرنا۔ابو جی کی محنت ، لگن اور جذبے کو معاشرہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انکی دینی اور دنیاوی خدمات پر خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
اﷲسے دعا کہ مجھ سمیت میرے بہن بھائیوں اور اولاد کووالد گرامی کے بتائے ہوئے رہنمااصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین
آسمان تیری شبنم افشارنی کرے سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے۔
 

Hafiz Muhammad Salman
About the Author: Hafiz Muhammad Salman Read More Articles by Hafiz Muhammad Salman: 3 Articles with 1575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.