عزت کا حصول مگر کیسے؟؟؟

تحریر:سجل ملک، اسلام آباد
دنیا کا ہر انسان چاہے اس کا تعلق کسی بھی معاشرے،تہذیب،خطے، اور کلاس سے ہو عزت چاہتا ہے اور ہر انسان اپنے اپنے دائرے میں عزت رکھتا بھی ہے۔جس طرح ہم کہتے ہیں کہ کسی کو کسی کی عزت اچھالنے یا بے عزت کرنے کا کوئی حق نہیں،بلکہ عزت پر وار کیا جائے تو آئین و قانون کی روسے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جا سکتا ہے۔مطلب عزت نہیں تو کچھ نہیں بلکہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جان جائے تو جائے عزت نہ جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ عزت سے پہلے کچھ چیزیں ہماری پہچان ہوتی ہیں۔ ان کو عزت دینا اور عزیز رکھنا ضروری ہے کیونکہ ہماری عزت تبھی ہو گی جب ہماری کوئی پہچان ہو گی۔ اور پہچان زبان سے،لباس سے،روایات سے ہوتی ہے اور پھر یہی پہچان ہماری عزت۔ تو پھر بحیثیت قوم،پاکستانی قوم ہماری زبان اور لباس ہی ہماری پہچان ہے۔

تو پھر اس زبان کے ہر لفظ میں ہم انگریزی کے پیوند لگا کر کر نہ صرف اس کی خوبصورتی میں دھبے لگا رہیں ہیں بلکہ اس کی ساخت کو بھی بگاڑ کر اس کی اہمیت وافادیت کو کم کر کے اپنی پہچان کو بھی کم کر رہیں ہیں۔ پیوند چاہے ریشم کا ہی کیوں نہ ہو پیوند ہی ہوتا ہے جو ہمیشہ بد نما ہی لگتا ہے۔

ایک طرف جہاں ہم اپنی زبان میں انگریزی کی پیوند کاری بڑے شوق و گھمنڈ سے کرتے ہیں وہیں اپنے لباس میں بھی انگریزی تقلید میں اتنے بڑے بڑے سوراخ کر لئے ہیں کہ اب کسی حد تک ننگے نظر آتے ہیں۔

سمجھنے والا نقطہ صرف اتنا سا ہے کہ ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہونا صرف انگریزی بولنے کو سمجھتے ہیں، ہمارے تعلیم یافتہ ہونے سے لیکر خود کو عقل مند، دانشور، پڑھا لکھا اور اچھے گھرانے کا سمجھنے تک، اسی کو سمجھا جاتا ہے جو چار لفظ انگریزی کے بول سکتا ہو باقی سارے ان کے نزدیک جاہل۔ یہاں تک کہ کسی پر رعب ڈالنا ہو تو ہم دو فقرے انگریزی کے بول دیتے ہیں۔

انگریزی صرف ایک زبان ہے اور بس۔

اگر زندہ اور خودار قوم ہو تو یاد رکھیں جس طرح کہتے ہیں کہ عزت اگر گھر سے ملے تو باہر کے لوگ بھی کرتے ہیں تو پھر اسی طرح اپنی زبان کی عزت و حفاظت ہمیں خود کرنی ہو گی۔

یہ زبان و لباس ہماری تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے لہذا اس آئینے کی حفاظت بھی خود ہم کو کرنی گی ورنہ اس کے اتنے ٹکڑے ہو جائیں گے ہر ایک میں الگ الگ عکس نظر آئے گا لیکن اپنا کوئی بھی نہیں لگے گا۔
ہماری زبان ہماری پہچان۔
ہماررا لباس ہماری عزت۔

لہذا یہ عزت اور پہچان ہے تو ہم ہیں یہ نہیں تو ہم بھی نہیں۔


 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 126 Articles with 122293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.