میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
ایک علم وہ ہے جس کے حصول کے لئے آج کے نوجوانوں کا ایک گروہ دن رات محنت
کرکے اس کے عوض کچھ نہ کچھ حاصل کرکے اس عارضی دنیا میں اپنا مقام بنانے کی
تیاریوں میں ہما وقت نظر آتا ہے لیکن ایک وہ وقت تھا جب ہمارے اکابرین خود
اور اپنے بچوں کو وہ علم جسے حقیقی علم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کے حصول کی
خاطرمشقت اور محنت بھرے راہوں سے گزار کر وہ مقام دلوانے کے خواہشمند تھے
جس کی ہر اہل ایمان مسلمان حسرت رکھتا تھا اور جس کی وجہ سے انہیں وہ مقام
ملا جسے نہ صرف قرب الہی نصیب ہوا بلکہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ ساتھ آج ان کے نام اور ان کے کام سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور
کئی خوش قسمت نوجوان آج بھی ان کے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نظر آتے
ہیں اور اس علم کی بدولت اپنی دنیا اور آخرت دونوں کی حفاظت میں لگے ہوئے
نظر آتے ہیں۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارےمختلف اکابرین کے یہاں علم دین کی
اہمیت اور اس کے حصول کے لئے کتنا جوش اور جذبہ تھا اس کا اندازہ اس واقعہ
سے لگایئے کہ اندلس کا ایک شہر ہے جسے قرتبہ کہتے ہیں جو علم وفضل کے
اعتبار سے کافی شہرت کا حامل ہے اور حضرت امام قرتبی علیہ رحمہ کا تعلق بھی
یہیں سے تھا وہاں کا ایک نوجوان تھا جس کانام تھا " بقی بن مخلد"(رحمتہ
اللہ علیہ ) اس نوجوان کو قران اور حدیث کے علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا
اس کو کسی نے بتایا کہ بغدا شہر میں ایک عالم ہیں جن کا نام ہے امام احمد
بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ یہ قرا ن اور احادیث کے علم کے وہ سمندر ہیں کہ جو
بھی ان کے پاس جاتا ہے وہ اپنے علم کی پیاس بجھا کر ہی لوٹتا ہے بس پھر کیا
تھا آپ علیہ رحمہ نے ایک گٹھری میں کچھ سامان لیا اور ایک کشتی کرایہ پر لی
کیوں کہ بغداد کے سفر میں پہلے ایک گہرے اور وسیع سمندر کو پار کرنا ضروری
تھا لہذہ اس کشتی کو لے کر آپ علیہ رحمہ اپنے سفر پر روانہ ہوگئے آپ علیہ
رحمہ فرماتے ہیں کہ جب ہم بیچ سمندر میں پہنچے تو اور چاروں جانب نظر
دورائی تو ایسا لگتا تھا جیسے کنارے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور ہر طرف
صرف پانی ہی پانی ہے اور پھر اچانک موسم نے اپنا تیور بدلا اور طوفان کے
امد کا اشارہ ہوا چونکہ طوفان کے دوران پانی کی اونچی اونچی لہریں آتی ہیں
تو اس لیئے کشتی ہچکولے کھانے لگی اور ہمیں الٹیاں ہونے لگیں ایسا لگ رہا
تھا کہ اب ہم خشکی کا منہ نہ دیکھ پایئں گے اور اسی سمندر میں ڈوب کر دنیا
فانی سے کوچ کرجایئں گے لیکن خدا خدا کرکے کچھ دنوں کے سفر کے بعد ہم خشکی
پر پہنچ گئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بقی الدین بن مخلد (رحمتہ اللہ علیہ ) نے
فرمایا کہ ہم جب خشکی پر کشتی سے اترے تو وہاں پر کچھ لوگ تھے ان سے پوچھا
کہ بھئی یہ بغداد شہر کہاں ہے تو ان لوگوں نے بتایا کہ بھئی وہ تو یہاں سے
600 سے 700 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں سے آپ کو کوئی سواری بھی نہیں
ملے گی تو آپ علیہ رحمہ نے گٹھری کو سر پر رکھا اور پیدل سفر پر روانہ
ہوگئے اب آپ یہ دیکھیں کہ علم کے حصول کا اتنا شوق کہ سمندر کے اتنے مشقت
والے سفر سے خشکی تک پہنچنا اور پھر 700 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے کا
عزم اس زمانے میں دینی علم کے حصول اور اس کا شوق دہکھنے کے قابل تھا بقی
الدین بن مخلد (رحمتہ اللہ علیہ ) نے جب یہ سنا تو پیدل بغداد کی طرف سفر
پر روانہ ہوگئے المختصر یہ کہ کافی دنوں کی مسافت طے کرکے جب بغداد شہر میں
داخل ہوئے تو مارے تھکن کے یہ حالت تھی کہ ایک درخت کے پاس آپ (علیہ رحمہ )
نے اپنی گٹہری رکھی اور جس طرح کوئی زمین پر گر جاتا ہے بلکل اسطرح گرگئے
اور نیند کی آغوش میں چلے گئے جب دو چار گھنٹے نیند کرلی اور آنکھ کھلی تو
کھڑے ہوگئے اور پھر گٹھڑی سر پر کھی اور شہر کی طرف چل دیا اتنے میں ایک
شخص سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا جو بغداد شہر سے آرہا تھا تو آپ علیہ رحمہ
نے اس سے کہا کہ کیا تم مجھے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے بارے
میں کچھ بتاسکتے ہو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں تو اس شخص نے کہا تم کیوں پوچھ رہے ہو تو
آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ میں اندلس سے سفر کرکے ان سے علم حاصل کرنے کے
لیئے آیا ہوں تو اس سخص نے ایک ٹھنڈی آہ لی اور کہا کہ تمہارا یہ خواب کبھی
پورا نہیں ہوسکتا تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کیوں تو اس نے کہا کہ بادشاہ
وقت کسی بات پر ناراض ہوگیا ہے جس کی بنا پر امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ
علیہ کو سزا کے طور پر اپنے ہی گھر میں نظر بند کردیا ہے تو نہ امام صاحب
کسی سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی امام صاحب سے مل سکتا ہے لہذہ تم ان سے
علم حاصل نہیں کرسکتے تو بقی الدین بن مخلد (رحمتہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ
میرے دل کو یہ سن کر چوٹ تو لگی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور شہر کی طرف
چلدیا کہ اللہ تبارک وتعلی کوئی نہ کوئی سبب بنادے گا شہر پہنچ کر ایک
چھوٹی سی جگہ میں نے کرائے پر لی اپنا سامان رکھا اور لوگوں سے کہا کہ بھئی
اتنا بڑا شہر ہے یہاں کہیں تو درس حدیث ہوتا ہوگا تو لوگوں نے کہاکہ ہاں
جامع مسجد میں ایک یحی بن معین رحمتہ اللہ علیہ آتے ہیں جو بڑے امام سمجھے
جاتے ہیں وہ عصر کے بعد حدیث کا درس دیتے ہیں بقی الدہن بن مخلد رحمتہ اللہ
علیہ نے کہا کہ میں نے سوچا کیوں نہ وہاں جائوں اور کچھ آحادیث سیکھلوں یہ
سوچ کر وہاں پہنچ گئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بقی الدین بن مخلد رحمتہ اللہ علیہ نے
فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت یحی بن معین رحمتہ اللہ علیہ جو کہ ایک بہت
بڑے محدث تھے انہوں نے ایک چھوٹی سی حدیث کی تلاوت کی اور اس کا درس دیا جب
وہ درس سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے ان سے راویوں کے بارے میں پوچھنا شروع
کردیا چونکہ یحی بن معین رحمتہ اللہ علیہ راویوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے
تھے لہذہ بتانے لگے کہ فلاع راوی صحیح ہے اور فلاع غلط جب ایک شخص کو جواب
ملا تو بقی الدین بن مخلد (رحمتہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ میں کھڑا ہوگیا اور
میں نے پوچھا کہ ہشام ابن احمار کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے
فرمایا اچھا ہشام وہ چادر والے تو میں نے کہا کہ ہاں وہ ہی تو فرمایا کہ وہ
اتنے فقہ ہیں کہ اگر اس کی چادر کے نیچے تکبر بھی آجائے تو اس کی فقہ پر
کوئی اثر نہیں ہوگالہذہ تم ان سے حدیث مروی کرسکتے ہو جب انہوں نے مجھے
جواب دیا تو میں نے دوسرا سوال پوچھنا چاہا لیکن پاس بیٹھے لوگوں نے میرا
کرتہ پکڑ کر کہا کہ یہاں کا دستور ہے کہ ایک دن میں ایک طالب علم ایک ہی
سوال پوچھ سکتا ہے ورنہ دوسرے رہ جایئں گے لہذہ آپ نے ایک سوال پوچھ لیا اب
بیٹھ جایئں تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ میں رونے لگا اور کہا کہ میں تو
اتنا لمبا سفر کرکے علم حاصل کرنے آیا ہوں اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں وہ
ہی سوال کرتا جو اصل میں مجھے پوچھنا تھا تو لوگوں نے مجھ پر ترس کھایا اور
کہا کہ ٹھیک ہے تم دوسرا سوال بھی پوچھ لو جب مجھے اجازت ملی تو میں نے یحی
بن معین رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ امام بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے
بارے میں آپ کیا کہتے ہیں بقی الدین بن مخلد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ
میرا یہ سوال سن کر پورے مجمع میں جیسے خاموشی چھا گئی ایک سکوت طاری ہوگیا
کیونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ بادشاہ نے کسی بات پر ناراض ہوکر انہیں گھر
میں نظر بند کیا ہوا ہے اور بھرے مجمع میں ان کے بارے میں سوال پوچھنا اپنے
آپ کو عذاب میں مبتلا کرنے جیسا تھا جناب یحی بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے
میرا سوال سن کراپنا سر جھکا لیا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کراہتی ہوئی آواز
میں بولے کہ احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ تو امام المسلمین ہیں جب یحی بن
معین رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات کہی تو میرے دل کے ارادے میں اور پختگی
آگئی کہ اب تو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے علم حاصل کئے بغیر میں
یہاں سے نہیں جائوں گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب محفل ختم ہوئی تو میں نے ساتھ بیٹھے
ہوئی سخص سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو اور مجھے تم جناب احمد بن حنبل رحمتہ
اللہ علیہ کا گھر بتادو تو اس نے کہا کہ نہیں بئی اگر پولیس کو شک بھی
ہوگیا تو وہ مجھے بھی کوڑے مارے گی اور تمہیں بھی تو آپ علیہ رحمہ نے
فرمایا کہ تم میرے ساتھ چلو اور جب حضرت کا گھر آئے تو مجھے آنکھ کر اشارے
سے بےبتادینا پھر تم وہاں سے گزر جانا میں جانوں میرا کام اس بات پر وہ
راضی ہوگیا اور اس طرح اس نے مجھے حضرت احمد بن حنبل کے گھر کا درواہ
دکھادیا اس کے بعد میں اپنے گھر آگیا اور ساری رات سوچتا رہا کہ کس طرح میں
ان سے علم حاصل کروں بلفرض اگر میری ملاقات ہو بھی جاتی ہے تو کیا وہ مجھے
ان حالات میں پڑھانے کے لیئے تیار ہوں گے؟ اور اگر پولیس کو شک ہوگیا تو وہ
مجھے بھی جیل میں ڈال دے گی پھر؟ ذہن میں کبھی کوئی ترکیب آتی کبھی کوئی
اور سوچتے سوچتے سوگیا جب صبح اٹھا تو میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی میں نے
اپنے پائوں کے گھٹنے پر ایک کپڑے کی پٹی باندھ لی جیسے دیکھنے والے کو لگے
کی کوئی زخم ہے ہاتھ میں ایک کتورا لیا اور مکمل طور پر ایک سائل کی شکل
یعنی روپ دھارلیا اور بازار میں جاکر سوال کرنا شروع کردیا یعنی مانگنا
شروع کردیا دیکھنے والے دیکھتے کہ یہ 20 سال کا نوجوان ہے لیکن اس زمانے
میں سائل پیسے نہیں مانگتے تھے بلکہ وہ سوال کرتے اجر کم ال للہ لیکن میری
جوانی کو دیکھکر مجھے کوئی کچھ دینے کو تیار نہ تھا اور کئی لوگ تو مجھے اس
طرح دیکھتے تھے کہ کہ رہے ہوں تمہیں شرم نہیں آتی اتنی سی عمر میں تم سوال
کررہے ہو پھر جب میں نے دیکھا کہ لوگوں کی آمدورفت کم ہوگئی ہے تو میں جناب
امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ کے گھر کے دروازے پر جاکر اپنی درد بھری آواز
میں کہنا شروع ہوگیا کہ اجر کم ال للہ میری آواز میں اتنا درد اور اثر تھا
کہ امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ سمجھے کہ یہ کوئی زیادہ ضرورت مند ہے تو وہ
دروازے پر آئے تو ان کے پاس کچھ سکے تھے جو وہ مجھے دینا چاہتے تھے تب میں
ان کے قریب گیا اور عرض کی کہ میں مال کا طلبگار نہیں ہوں مجھے تو علم کی
ضرورت ہے اور میں نے تو یہ بھکاری کا روپ آپ علیہ رحمہ تک رسائی کی غرض سے
اپنایا ہے میں روزانہ اسی طرح صدا لگاتا ہوا آئوں گا اگر کوئی دوسرا شخص
کھڑا ہو تو آپ مجھے سکے دےدینا اور کوئی نہ ہوا تو آپ علیہ رحمہ مجھے ایک
دو احادیث پڑھادیا کرنا میں زبانی یاد کرلوں گا تو امام احمد بن حنبل علیہ
رحمہ نے فرمایا کہ نہ بابا نہ جائو یہاں سے اگر پولیس کو شک بھی ہوگیا تو
تم بھی مارے جائو گے اور میں بھی لیکن جب آپ علیہ رحمہ نے دیکھا کہ اس
نوجوان میں علم کے حصول کا کتنا جذبہ ہے تو آپ علیہ رحمہ نے حامی بھر لی
بقی الدین بن مخلد علیہ رحمہ نے فرمایا کہ میں ایک سال تک بغداد کی گلیوں
میں بھیک مانگنے کے بہانے امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ سے کچھ احادیث
سیکھتا اور انہیں یاد کرلیتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کی شان دیکھیئے کہ حاکم
وقت کا انتقال ہو گیا اور دوسرا حاکم وقت آگیا اور اس حاکم وقت کو امام
احمد بن حنبل علیہ رحمہ سے بہت عقیدت تھی لہذہ اس نے آپ علیہ رحمہ کی
نظربندی بھی ختم کردی اور جو جامع مسجد میں آپ علیہ رحمہ کا احادیث کے درس
کا پروگرام ہوتا تھا وہ بھی دوبارہ شروع کروادیا بقی الدین بن مخلد علیہ
رحمہ نے فرمایا کہ جب میں عصر کے وقت جامع مسجد پہنچا تو لوگوں کا اتنا جم
غفیر دیکھکر میں حیران ہوگیا آگے جانے کی جگہ نہیں تھی لیکن میں کوشش کرکے
اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے میں کم از کم جناب امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ کا
دیدار ہی کرسکوں اور آپ علیہ رحمہ کے تھوڑی دور سامنے جاکر کھڑا ہوگیا جب
جناب امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ علیہ رحمہ
نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس نوجوان کو میرے پاس آنے دو کہ علم کا
اصل طلب گار اور پیاسا تو یہ نوجوان ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دینی علم جسے میں حقیقی علم کہتا ہوں حاصل
کرنے کے لیئے اتنا طویل سفر کرنا جس میں سمندر کے طوفان کا سامانا تھا ،
700 کلومیٹر لمبا پیدل سفر بھی تھا اور پھر بھکاری کا روپ دھارنا یہ سب صرف
اللہ تبارک وتعالی کو راضی کرنا اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی
خوشنودی حاصل کرنے کا ایک اعلی نمونہ تھا اور جب ہم اپنے اکابرین کی
زندگیوں کے حالات و واقعات کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں ان
علوم کے حصول کے لئے ہمارے اولیاء کرام اور بزرگان دین کتنی مشقت اٹھاکر ان
علوم کو حاصل کرتے تھے کیا آج کے اس دور میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ہمیں
نظر آتی ہے ؟ جبکہ آجکل ہر مسلمان کے لیئے اتنی سہولتیں ہیں نہ سمندر کا
سفر نہ پیدل چلنا اور نہ ہی کوئی اور مشقت لیکن ہمیں ایسے لوگ بہت کم ہی
نظر آتے ہیں جنہوں نے نامسائل حالات کے باوجود علم دین حاصل کیا ہو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ
تبارک وتعالی ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے آنی والی نسلوں کو وہ تعلیم
دلوائیں جن سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں اللہ تبارک وتعالی سے
دعا ہے کہ مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔۔
آمین آمین ثمہ آمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم۔
|