ماہ صیام اپنی برکتوں کے ساتھ
رخصت ہوا۔ اب کے تو کچھ ایسا ہوا ہے کہ یہ مبارک مہینہ بھی یاد رکھے گا اور
ہم بھی مدتوں بھول نہ پائیں گے۔ دن بھر بھوک اور پیاس کی سختی جھیلنے والے
اپنے ہی لہو میں نہلا دیئے گئے۔ کل تک جن کی آنکھ میں ماہ صیام کے لئے
تھوڑی بہت شرم باقی تھی اُنہوں نے غیرت، حمیت اور شرم کا شائبہ تک اپنے
وجود میں باقی نہیں رہنے دیا۔ جن ساعتوں میں رحمت اور برکت تلاش کی جاتی ہے
ان ساعتوں میں لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھاتی رہیں اور پانی برسائے بغیر گزرتی رہیں۔ برستی
بھی کیوں؟ خون جو برس رہا تھا! بچوں کے سروں سے سایہ اور ہونٹوں سے ہنسی
چھین لی گئی۔ موت نے مسعود لمحات کی منتظر آنکھوں میں خوف سمودیا۔ اللہ کی
رحمت کا حصول یقینی بنانے کے لئے سجدے میں جانے والے سر بھی اپنی اور اپنے
پیاروں کی زندگی کے بارے میں سوچ سوچ کر بوجھل ہوتے رہے۔ عبادات کے لطف اور
تقدس کو بھی حالات کی خرابی کے آغوش میں دے دیا گیا۔
ذہن سوچ سوچ کر اُلجھتا ہے کہ ہم نے کیسا ماہ صیام گزارا ہے جس میں
عیدالاضحی کا رنگ نمایاں تھا! رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادت ہمیں
جہنم کی آگ سے نجات دلاتی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ اور اعلان ہے مگر شاید ہمیں
اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں۔ اِس جملے میں ”شاید“ بھی تکلفاً قلم کی نوک سے
نکل گیا، ورنہ حق تو یہ ہے کہ ہمارے دِل اور دماغ اللہ کے کسی وعدے پر
ایمان لانے اور یقین رکھنے کو تیار نہیں۔ عمل آئینے کی طرح ہوتا ہے، سب کچھ
بتا دیتا ہے۔ جہنم کی آگ سے نجات کا یقین ہوتا تو ہم رمضان المبارک کے آخری
عشرے میں اپنے لیے جہنم کی آگ نہ دہکا رہے ہوتے۔
ایک دوسرے کا خون بہانے سے فرصت مل پاتی تو ہم اپنے احوال کی اصلاح پر بھی
توجہ دیتے۔ جن مبارک ساعتوں میں عبادات کا ثواب کئی گنا کردیا جاتا ہے اُن
میں ہم نے یہ طے کرلیا کہ اللہ کی ہدایات پر عمل کے سوا سب کچھ کر گزریں گے
اور کر گزرے۔ اِس دوران بے گناہوں پر کیا گزری، اللہ ہی جانتا ہے۔ کسی کے
دل کا ٹکڑا گولیوں سے بھون دیا جائے تو ہم صرف کفن پہناکر دفنا سکتے ہیں،
دکھ تو اُسی کو محسوس ہوسکتا ہے جس کا جگر گوشہ ہمیشہ کے لئے الگ کردیا گیا
ہو۔ تسلی کے چند جملوں سے بھلا کسی کی کیا تشفی ہوگی؟
سیاست کے گندے کھیل نے عبادات کے مواقع بھی تفکرات کی بھٹی میں جلاکر خاک
کردیئے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ لوگ اپنے سارے کام
رمضان کے بعد پر رکھ دیتے ہیں۔ سال بھر یہ ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی کام شروع
کرنے کو کہیے تو جواب ملتا ہے پیر سے شروع کریں گے۔ رمضان المبارک کی آمد
پر بیشتر معاملات میں ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ابھی تو رمضان ہے، عید کے بعد
دیکھیں گے۔ اگر نہ ٹل سکی تو بس قتل و غارت رمضان کے بعد پر نہ ٹل سکی! جسے
جو کرنا تھا رحمتوں اور برکتوں کے مہینے میں بھی کر گزرا۔ نیکیاں کمانے کا
ہر موقع ضائع کرکے گناہوں سے افکاراور اعمال کو مزید آلودہ کیا گیا۔ اعمال
نامے کی سیاہی میں اضافے کا سلسلہ جاری ہی رہا۔ کیا سحر کے مسعود لمحات اور
کیا افطار کی بابرکت گھڑیاں، رمضان کا کوئی پہر ہمارے فکر و عمل کی سفّاکی
سے بچ نہ سکا۔ ماہ صیام کے ایام گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں قتل و غارت کا
گراف بھی بلند ہوتا گیا۔ یہ تو اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ پھر
اگر عذاب نازل ہو تو حیرت کیسی؟ جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو محض آپس کا حساب
چکانے کا معاملہ ہے۔ یعنی قتل کے بدلے قتل اور لوٹ مار کے جواب میں لوٹ مار۔
اللہ کا عذاب تو اِس کے بعد کی منزل ہے۔ ماہ صیام کچھ اِس رنگ میں گزرا کہ
دل و نظر پر قیامت ہی تو گزر گئی۔
کس قیامت کا انتظار کریں؟
زندگی سر بہ سر قیامت ہے!
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اللہ کے غضب سے ڈریں؟ کیا اب بھی وقت نہیں
آیا کہ ہم اللہ کی رحمت کو اپنے لیے عذاب میں تبدیل کرنے سے گریز کی راہ پر
گامزن ہوں؟ ہوش و حواس، تاب و تواں سبھی کچھ مٹی میں ملانے کی عادت ہمیں
کہاں لے آئی ہے، کچھ اِس کا اندازہ ہے؟ اللہ اپنے وعدے نہیں بھولتا اور
وعدے کے خلاف بھی نہیں کرتا مگر ہم اللہ کے تمام وعدے بھول چکے ہیں۔
رمضان اپنے تمام فیوض و برکات کے ساتھ ہم سے رخصت ہوا۔ رحمت کی ساعتیں ہم
سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ کیا؟ یہی کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، غیرت اور شرم بحال
کریں، قتل و غارت سے باز آئیں اور اللہ کے احکام کی روشنی میں زندگی بسر
کرنے کی سعی کریں۔ زندگی کو اللہ کی نعمت گردانتے ہوئے پوری شکر گزاری کے
ساتھ جینے کا وقت آگیا ہے۔ اللہ نے ہمارے لئے رحمتوں اور برکتوں کی سبیل
لگائی مگر ہم نے سیراب ہونا گوارا نہ کیا۔ ایک دوسرے کے خون سے پیاس بجھانے
کی روش ترک نہ کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے، اِس کے بارے میں ہم سوچنے کی
زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ اور شاید یہ زحمت ہم اس لئے گوارا نہیں کرتے کہ
اپنے انجام سے ہم سبھی واقف ہیں! جب واقف ہیں تو اِس سے بچنے کی تدبیر کیوں
نہیں کرتے؟
گروہوں کی سطح سے بلند ہوکر ہمیں دوبارہ معاشرہ بننا ہے مگر اِس کے لئے
لازم ہے کہ ہم اللہ کی راہ پر گامزن ہوں، اُس کے احکام کو تسلیم کرکے اُن
پر عمل پیرا ہوں۔ یہ سب کچھ جس قدر مشکل ہے اس قدر آسان بھی ہے۔ اللہ کی
طرف جانے میں قباحت صرف انا کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ انا کا گلا
گھونٹنے کی صورت میں ہم ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کی زحمت سے نجات پائیں
گے۔ چند گز زمین کے لئے لڑنے والے جنت کی وسعتوں سے واقف نہیں۔ اگر واقف
ہوتے تو ایک دوسرے کا خون بہاکر حرص کو حرز جاں نہ بناتے۔ معمولی مفادات کے
لئے قدم قدم پر حریصانہ حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والوں کو اللہ کی فراخی اور
سخاوت کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔
ہر قسم کے تعصبات پر لعنت بھیجنے کا وقت آگیا ہے۔ آگ لگانے والوں نے تو آگ
لگاتے رہنے کی ٹھان لی ہے، ہم کیوں اپنی زندگی کو خاکستر ہونے دیں؟ یہ عمل
کی گھڑی ہے۔ علامہ اقبال نے ہمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے |