آئین پاکستان کے تحت مملکت کا نا م اسلامی جمہوریہ
پاکستان اور سرکاری مذہب اسلام ہے۔اسکے باوجود پاکستان میں مذہب اسلام کی
مقدس ترین ہستیوں کی توہین جیسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ ریاست پاکستان کی
اکثریت مذہب پسند اور امن پسند ہے مگر چند فروعی، اعتقادی اورکچھ تاریخی
واقعات پر اختلافات کی بناء پر چند شرارتی افراد کی جانب سے ہونے والی
اشتعال انگیزی سے پورا معاشرہ فرقہ بازی اور شدت پسندی کی زد میں آجاتا
ہے۔ یاد رہے مسلمانوں کے دو بڑے گروہ چودہ سو سال سے ہیں۔ انکے درمیان
اختلافات ہمیشہ ہی سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن ان اختلافات کی بناء کسی فرد کو
یہ حق حاصل نہیںہونا چاہئے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے اور جنت و دوزخ کے
ٹکٹ جاری کرے ۔ افسوس ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ دین اسلام کی سب سے بڑی عبادت
نماز میں لڑائی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتے ، کبھی رفع یدین کرنے یا نہ
کرنے پر لڑائی تو کبھی اونچی یا دیمی آواز میں آمین کہنے پر
جھگڑا۔بدقسمتی سے گذشتہ کئی دہائیوں سےپاکستانیوں نے جہاں دہشت گردی دیکھی
وہیں پر فرقہ پرستی جیسی لعنت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔بہرحال لاقانونیت کے
خاتمہ اور امن وامان قائم رکھنے کے لئے قوانین بنانا ریاست کی سب سے بڑی
ذمہ داری ہے۔ یہ قوانین جہاں ایک طرف ریاست کو بااختیار بناتے ہیں وہیں پر
ریاست کے شہریوں کو لاقانونیت اورجرائم کی سز اکے متعلق آگاہی بھی فراہم
کرتے ہیں۔17 جنوری کو جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر
چترالی نے صحابہ کرامؓ و اہلبیت ؓ و امہات المومنینؓ کی توہین روکنے سے
متعلق فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2023ء پیش کیا جسے اراکین اسمبلی نے
متفقہ طور پر منظور کیا۔نئے قانون کے تحت صحابہؓ و اہلبیتؓ اور امہات
المومنینؓ کی توہین پر کم سے کم سزا 10 سال جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر قید
ہوگی پرانے قانون میں یہ سزا 3 سال تک تھی۔منظور شدہ بل کے مطابق مجموعہ
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 میں ترمیم کی گئی ہے ، 298A میں مقدس ہستیوں
کی توہین کی سزا تین سال کو بدل کر عمر قید جو دس سال سے کم نہ ہوگی سے
تبدیل کردیا گیاہے۔اسی طرح مجموعہ ضابطہ فوجداری کی چند دفعات میں تبدیلیاں
کردی گئی ہیں۔ بل پیش کرتے ہوئے اسکے اغراض ومقاصد کو انتہائی خوبصورتی سے
بیان کیا گیاہے۔ جیسا کہ اس بل میں درج ہے کہ چند لوگ سوشل میڈیا اور
انٹرنیٹ وغیرہ پر توہین رسالت کا عمل سرانجام دیتے ہیں اور وہ پوشیدہ طور
پر ایسے صفحات اور پیغامات اپ لوڈ کرتے ہیں۔ تاہم دفعہ 295C میں سزائے موت
کی وجہ سے توہین رسالت میں ملوث لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور اس حقیقت کا
مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ اور دیگر مقدس ہستیوں کی
توہین نہ صرف ملک میں دہشت گردی اور انتشار کو فروغ دیتی ہے بلکہ اس سے
تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکی دل آزاری ہوتی ہے۔ قرآن
پاک میں اللہ پاک نے انتشارکو فتنہ اور قتل سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298Aمیں مقدس ہستیوں کی توہین پرانتہائی کم سزا کی
وجہ سے مجرم سزاکے باوجود اس جرم کا دوبارہ ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا سادہ سزا
کی وجہ سے لوگ بذات خود مجرموں کو سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں جو تشدد میں
اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اغراض و وجوہ میں مزید لکھا گیا ہے کہ یہ ذمہ داری
منتخب پارلیمان کی ہے کہ وہ سنجیدہ معاملہ کو سمجھتے ہوئے ان تمام چیزوں کا
جائزہ لے جس سے مادروطن کے اندر دہشتگردی کو فروغ ملتا ہے ۔مزید یہ بھی
بیان کیا گیا ہے کہ تعزیرات پاکستان کی جرائم کی فہرست میں بیان کردہ کچھ
جرائم جوکہ مقدس ترین ہستیوں کی توہین کےمقابلہ میں کئی گنا کم درجہ کے ہیں
مگر ان چھوٹے جرائم کی سزائیں مقدس ترین ہستیوں کی توہین جیسے بڑے گناہ اور
جرم کی سزاؤں سے زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فرد جو مذہبی شعائرپر
تنقید کرتا ہے تو وہ دس سال کی سزا کا مستوجب ہوگا جبکہ صحابہ کرامؓ و
اہلبیت ؓ و امہات المومنینؓ کی توہین کی سزا صرف تین سال ہے۔ اسی طرح ایک
عام فرد کی توہین کی سزا پانچ سال ہے جبکہ صحابہ کرام اہل بیت و امہات
المومنین کی توہین کی سزا تین سال ہے۔لہذا اس بل کو پیش کرنے کا مقصد ان
جرائم کے سدباب کے لئے سزاؤں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ جہاں اس بل کی منظوری
کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت مسرت کا اظہار کررہی ہے ، وہیں پر بطور قانون،
سیاست اور صحافت کے ادنیٰ طالب علم میری نظر میں ا س بل کو پارلیمینٹ میں
پیش کرنے کے اغراض ومقاصد نہایت خوش اسلوبی سے درج کئے گئے ہیں۔قومی اسمبلی
سے اس بل کی متفقہ منظوری کے بعد امید کی جاتی ہے کہ سینٹ سے بل کی باقاعدہ
منظوری کے بعدقانون کی شکل اختیار کرلے گا۔ لہذا عوام الناس کو چاہئے کہ
کسی قسم کی گستاخی رونما ہونے کی صورت میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے
فی الفور پولیس اسٹیشن جا کر ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج
کروایں۔اسکےساتھ ساتھ توہین کے جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لئے نئی
قانون سازی کی اشد ضرورت ہے جس میں توہین کا جھوٹا الزام لگانے والے کو جرم
ثابت نہ ہونے پر وہی سزا دی جائے جو قانون میں جرم ثابت ہونے مجرم پر عائد
ہوتی ہے۔ کیونکہ ماضی میں دیکھا گیا کہ بعض اوقات لوگ اپنی ذاتی دشمنی کی
بناء پر دوسرے فرد کو پھنسانے کے لئے توہین کے الزامات لگوا کرمقدمات درج
کروادیتے ہیں اور بعد میں ایسے الزامات جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ کریم ہم
سب کو اللہ اور اسکے پیارے رسول ﷺ، اہلبیت، امہات مومنین، صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت نصیب فرمائے ۔کیونکہ اسی میں ہماری دنیا
اور آخرت میں کامیابی ہے۔ آمین ثم آمین
|