حالیہ برسوں میں چین اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے سی
پیک کی تعمیر میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے ۔تجزیہ کارسی پیک کو خطے میں ایک
ایسا "گیم چینجر" منصوبہ قرار دیتے ہیں جو کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں
بہتری اور بدلاو کا موجب ہو گا۔پاکستان کے تناظر میں سی پیک کی بدولت ملک
کی اقتصادی سماجی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے اور مختلف منصوبوں کی
تکمیل سے عوامی خوشحالی کو مزید فروغ ملا ہے جس کے پاکستانی سماج پر بھی
دوررس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک کی
اعلیٰ قیادت سی پیک کی کامیاب تکمیل میں زاتی دلچسپی لے رہی ہے اور گاہے
بگاہے اس حوالے سے اہم بیانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن میں اس منصوبے کو
وسیع تر عوامی مفاد میں آگے بڑھانے کا پختہ عزم دوہرایا جاتا ہے۔
دوسری جانب یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ چین کے تعاون کی بدولت پاکستانی میں
مختلف شعبوں کی ترقی بھی ممکن ہو رہی ہے۔اس کی تازہ ترین مثال گرین لائن
ریلوے ایکسپریس کے لیے چین کی جانب سے فراہم کردہ جدید ٹرین کوچز ہیں۔ یہ
کوچز وائی فائی اور جدید سفری سہولیات سمیت نئے فیچرز سے آراستہ ہیں۔اس سے
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان ریلوے کی ساکھ میں بہتری سمیت مزید
مسافروں کو راغب کرنے اور ریلوے آمدنی میں اضافہ ہو سکے گا۔ اس سے قبل
لاہور شہر میں بھی سی پیک فریم ورک کے تحت تعمیر کی جانے والی اورنج لائن
میٹرو ٹرین (او ایل ایم ٹی) نے ایسے لا تعداد شہریوں کی زندگیوں میں بہت
مثبت تبدیلیاں لائی ہیں جو ہر روز ٹرین پر متعدد سفر کرتے ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے گرین
لائن ایکسپریس سروس روک دی گئی تھی جس سے ریلوے کو بھاری نقصان پہنچا اور
کئی پٹریاں متاثر ہوئیں۔اب ،پاکستان نے چینی دوستوں کی مدد سے سروس دوبارہ
شروع کردی ہے اور اس وقت ملک بھر میں سروس بحال کردی گئی ہے۔ریلوے کے شعبے
میں دونوں ممالک کے درمیان جاری تعاون کے تحت چین سے 230 کوچز کے حصول کے
معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں جس میں سے پاکستان کو 46 کوچز مل چکی ہیں اور
باقی ٹیکنالوجی ٹرانسفر معاہدے کے تحت پاکستان میں تیار کی جائیں گی۔ یوں
پاکستان ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری
ہے۔
حقائق کے تناظر میں 21 اپریل2015 کو چین کے صدر شی جن پھنگ نے پاکستانی
پارلیمنٹ میں" چین. پاکستان ہم نصیب معاشرے کی تعمیر اور جیت۔جیت تعاون پر
مبنی نئے سفر کا آغاز" کے عنوان سے ایک اہم خطاب کیا تھا۔ ان کے دورہ
پاکستان اور مختلف حلقوں کے ساتھ گہری مشاورت سے چین۔پاکستان چاروں موسموں
کی اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو ایک نئی سطح تک بلند کیا گیا۔اس
تاریخی دورے کے بعد گزشتہ08 برسوں میں ،دونوں ممالک نے سی پیک کی ہمہ جہت
تعمیرو ترقی کو آگے بڑھایا ہے اورمختلف شعبوں میں تعاون کے ذریعے روایتی
دوستی اور فولادی بھائی چارے کو ایک نئی توانائی اور طاقت فراہم کی ہے۔سی
پیک فریم ورک کے تحت چین اور پاکستان نے مختلف ورکنگ گروپس قائم کیے ہیں جن
میں طویل مدتی منصوبہ بندی، گوادر بندرگاہ، توانائی، ذرائع نقل و حمل کا
بنیادی ڈھانچہ، صنعت، سماجی زندگی، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، سکیورٹی
تعاون، بین الاقوامی تعاون و ہم آہنگی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل
ہیں۔فریقین کی مسلسل کوششوں اور اعلیٰ درجے کے تعاون سے سی پیک کی تعمیر کا
اصل مفہوم و مقصد واضح ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ مسلسل اعلیٰ معیار کی
ترقی کی جانب گامزن ہے۔ سی پیک کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں علاقائی اور
صنعتی تعاون سے حاصل ہونے والے معاشی اور سماجی فوائد سے پاکستان اور چین
نیز خطے کے دیگر ممالک کے عوام بھی مزید مستفید ہوں گے۔
سی پیک کی مسلسل تعمیر میں چینی کارکنوں کے مثبت کردار کو دیکھا جائے تو
ابھی حال ہی میں پاکستان میں کام کرنے والے چینی ماہرین نے تعمیراتی
منصوبوں کی بروقت تکمیل کی خاطر اپنی جشن بہار کی تعطیلات بھی قربان کی
ہیں۔ خاص طور پر پن بجلی منصوبوں پر مصروف عمل 500 سے زائد چینی ملازمین نے
جشن بہار کی چھٹیوں کے دوران بھی کام جاری رکھا۔ جشن بہار کی تعطیلات اُن
ایام میں آتی ہیں جب دریاؤں میں پانی نسبتاً کم ہوتا ہے لہذا اس مدت کو پن
بجلی منصوبوں پر کام کی رفتار کو بڑھانے کے لیے بہت موزوں خیال کیا جاتا
ہے۔اسی باعث چینی کارکنوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی حالانکہ جشن
بہار وہ تہوار ہے جسے چین میں فیملی ری یونین کا سب سے بڑا اور اہم تہوار
سمجھا جاتا ہے۔یہی وہ عملی رویے ہیں جن کی بدولت پاکستان میں توانائی کے
منصوبوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے جن سے نہ صرف پاکستان میں بجلی کی کمی
کے مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا رہا ہے بلکہ ملک کے توانائی کے ڈھانچے
کو مزید بہتر بنانے میں بھی مدد مل رہی ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ جوں جوں
سی پیک منصوبہ جات پایہ تکمیل کو پہنچیں گے ،اُسی قدر پاکستان کا معاشی اور
سماجی شعبہ مزید بہتری اور استحکام کی جانب بڑھے گا اور عوام حقیقی ثمرات
سے مستفید ہوں گے۔
|