|
|
فراڈ کے ذریعے کسی کو لوٹنے کی تاریخ بہت پرانی ہے اس کے
حوالے سے نت نئے طریقے استعمال کر کے سادہ لوح انسانوں کی محنت کی کمائی کو
لوٹا جاتا رہا ہے- اس حوالے سے جب بھی دھوکہ دہی کا طریقہ پرانا ہوتا ہے تو
فراڈيے اس کام کے لیے کوئی نیا طریقہ اختیار کر لیتے ہیں آج ہم آپ کو ایسے
ہی ایک نۓ طریقے کے بارے میں بتائيں گے- |
|
47 لاکھ نو
سو روپے چائے کا مہنگا فراڈ |
اس فراڈ کا شکار ایک سہیل اختر نامی معصوم
شہری بنے جو کہ اسلام آباد کا رہائشی ہے اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس 2016
ماڈل ہنڈا ویزل کار تھی - گاڑيوں کو باہر سے منگوانے والے ان کے ایک دوست
نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ اگر چاہے تو اپنی یہ گاڑی 46 یا 47 لاکھ تک بیچ
دیں تو وہ ان کو اتنے ہی پیسوں میں 2019 کی گاڑی دلوا دیں گے- |
|
گاڑی کی
فروخت کے لیے سوشل میڈیا پر اشتہار |
اس آفر نے سہیل اختر صاحب کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی گاڑی کی فروخت کے لیے
سوشل میڈيا پر اشتہار دے دیا جس کے بعد ان سے تین چار افراد نے رابطہ بھی کیا- یہاں
تک کہ ایک پارٹی ان کے گھر شام کے وقت آپہنچی- |
|
|
|
تین افراد جن میں سے ایک صاحب جو خود کو حاجی صاحب کے
نام سے متعارف کروا رہے تھے ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا اورایک دفتر کا
ساتھی شامل تھا۔ انہوں نے گاڑی دیکھی اور اس کی قیمت پوچھی اور تھوڑے سے پس
و پیش کے بعد ان کے درمیان یہ سودا 47 لاکھ میں طے ہو گیا- |
|
فراڈ کا طریقہ |
سہیل اختر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے دن جب انہوں
نے پے منٹ کرنی تھی تو یہ تین چار افراد دوبارہ شام کے وقت ان کے پاس آئے
تو انہوں نے اس بات کی درخواست کی کہ وہ گاڑی کی پے منٹ کیش کے بجائے پے
آرڈر کے ذریعے کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ ان کو انکم ٹیکس وغیرہ کے حوالے سے
مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے- جس پر سہیل اختر صاحب نے ان کی یہ بات بھی
مان لی اور یہ طے ہو گیا کہ اگلے دن وہ پے آرڈر بنا کر دے دیں گے- |
|
اگلی شام ایک بار پھر حاجی صاحب تین چار افراد کے ساتھ
موجود تھے مگر اس دفعہ ان کی آمد کا مقصد ایک بار پھر ایک معذرت کرنا تھا
ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کی کچھ پے منٹس رک گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ آج تو
پے آرڈر نہیں بنا سکے مگر کل ضرور ایسا کر دیں گے- |
|
اس موقع پر سہیل اختر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ
حاجی صاحب کی خوش لباسی، پرفیوم اور رکھ رکھاؤ نے اتنا متاثر کیا کہ وہ ان
کی ہربات کو آنکھیں بند کر کے ماننے لگے- |
|
فراڈ کا آخری
مرحلہ |
چوتھے دن حاجی صاحب کا بیٹا سہیل صاحب کے پاس
آیا اور ان سے کہا کہ حاجی صاحب پے آرڈر لے کر آرہے ہیں تو تب تک وہ اور
سہیل صاحب سیل ایگریمنٹ بنا لیں تاکہ وقت بچ سکے- سہیل صاحب سیل ایگریمنٹ
بناتے ہیں جس کے مطابق یہ شق لکھی ہوتی ہے کہ پے آرڈر ملنے پر سہیل صاحب ان
کو گاڑی کاغذات سمیت دے دیں گے اسی اثنا میں حاجی صاحب بھی پے آرڈر لے کر
آجاتے ہیں مگر اس وقت تک بنک کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے- |
|
جس پر سہیل صاحب ان کو گاڑی کے کاغذات دینے میں
تھوڑی سی پس و پیش کرتے ہیں مگر موقع پر موجود ایک وکیل ان کو کہتا ہے کہ
جب پے آرڈر مل گیا ہے تو پھر اس حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک بے معنی ہیں
تو سہیل اختر نے حاجی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو نو سو روپے کی چائے پلائی
اور ان سے پے آرڈر لے کر گاڑی اور اس کے کاغذات ان کے حوالے کر دیے- |
|
|
|
بڑا صدمہ |
اگلی صبح جب سہیل اختر صاحب اس پے آرڈر کو کیش
کروانے کے لیے بنک پہنچے تو وہاں موجود اکاونٹینٹ نے ان کو یہ بتایا کہ یہ
پے آرڈر جعلی ہے جو دو سال قبل بنایا گیا تھا اور صرف 38 ہزار کی مالیت کا
تھا- |
|
سہیل اختر کا یہ کہنا تھا کہ اس کے بعد انہوں
نے حاجی صاحب کو فون کیا جنہوں نے فون اٹھا کر ان سے بات کی کہ وہ معلومات
کرتے ہیں کہ پے آرڈر کیسے جعلی نکل سکتا ہے جس کے بعد سے ان کا فون بند ہو
گیا ہے- |
|
اور اس طرح سہیل اختر صاحب نے اس ہوٹل پر بیٹھ
کر جو چائے کا کپ پیا وہ ان کو 47 لاکھ نو سو روپے کا پڑا اور وہ اپنی گاڑی
سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے- |
|
فراڈ کا یہ طریقہ اگرچہ نیا نہیں ہے مگر لوگوں
کو فراڈ کے اس طریقے سے آگاہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اس سے محفوظ رہ
سکیں- |