یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو پکڑنے کے
لیے انسان بھاگتا ہے۔بچہ ہو یا بڑا ‘ سب کا ایک ہی جیسا حال ہے ۔ موبائل
فون جیسے ہی دنیا میں متعارف ہوا تو یہ امتیازی شکل اختیار کرگیا۔ ہر شخص
خریدنے کے لیے دوڑ پڑا ۔جب موبائل گھروں میں داخل ہوا تو خواتین کے ساتھ
ساتھ چھوٹی عمر کے بچوں کی دلچسپی کاباعث بھی بن گیا ۔یہ ایک ایسی دوڑ تھی
جو کبھی ختم ہونے کانام نہیں لے رہی ۔آہستہ آہستہ ہر چھوٹا بڑاانسان‘
موبائل کی ریزکاری اور تباہ کاری سے متاثر ہونے لگا ۔ کسی کی بینائی متاثر
ہوئی تو کوئی اعصابی بیماری کا شکار ہوا ۔کسی کا حافظہ کمزور ہوا تو کسی کی
نیند ہی غیب ہوتی چلی گئی ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے
دنیا بھر کے والدین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل
ہرگز نہ دیں ۔ کیونکہ بچوں کو اپنے ہاتھوں خوفناک بیماریوں میں مبتلا کرنے
کا یہ تیز رفتار عمل ہے ۔معصوم اور نوخیز بچے جن کی عمر دو سے بارہ سال کے
درمیان ہیں۔ ان کا اعصابی نظام جو پروان چڑھنے کے مرحلے میں ہوتا ہے، اس پر
موبائل ریڈی ایشن کے انتہائی گہرے اور مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ دنیا کے
ممالک میں ایسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بچوں کی تشخیص کی جاچکی ہے ۔
موبائل سے نکلنے والی الیکٹرومیگنگ لہریں نوخیز بچوں کے پورے اعصابی نظام
کو متاثرکررہی ہیں۔ یہ لہریں بہت تیزی سے جسم میں داخل ہو کر بچے کے فطری
جسمانی نظام کو آہستہ آہستہ مفلوج کردیتی ہیں ۔ادارہ صحت کی اس اپیل پر
دنیا کے مختلف ممالک نے والدین کے ذریعے بچوں کے موبائل استعمال پر قانونی
طور پر پابندی بلکہ جرمانہ بھی عائد کردیا ہے لیکن کسی ممالک جن پاکستان
بھی شامل ہے ،اب تک خاموش ہے ۔ اسی طرح امریکی نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے
مطابق والدین پہلے خود بچوں کو موبائل کا عادی بناتے ہیں پھر بچوں کی مسلسل
بنائی جانے والی تصاویر‘ ویڈیو ‘ بچوں کے موبائل گیمز میں بڑھتی ہوئی رغبت
اور بچوں کا عادی ہوجانا ۔ اس کے بعد والدین کا بے بسی کا اظہار کرنا‘ عام
سی بات ہوتی جارہی ہے۔ ایسے ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی ماہرین نے
ایسے والدین سے سوال کیا کہ آپ کا لخت جگراگر کوئی زہریلی چیزکھانے لگے تو
کیا آپ اسی طرح بے بسی کا اظہار کریں گے یا بچے کو سختی سے روکیں گے ۔طبی
ماہرین کے مطابق موبائل کا استعمال نسوں کے نظام کو متاثر کرتا ہے ‘ نسوں
کی حساسیت انتہائی کمزور پڑجاتی ہے ۔اعصابی نظام کی یہ حساسیت ہی ایک انسان
کی دماغی اور فطری صلاحیتوں کی اصل قوت اور کارکردگی کااظہار ہے ۔علاوہ
ازیں بینائی کی کمزوری ‘ ڈیپریشن ‘ وائر ل انفیکیشن‘ حرکت قلب کی بے قاعدگی
‘ جلد کے کینسر اور برین ٹیومر میں مبتلا ہونے کا خطرہ سو گنا زیادہ بڑھ
جاتاہے ۔سب سے بڑا نقصان بچے کی یادداشت میں کمزوری ہے ‘ قوت حافظہ آہستہ
آہستہ متاثر ہونے لگتی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک اور تحقیق کے مطابق ٹچ
سکرین، بچوں کی انگلیوں کی نسیں اور اس کی حساسیت پر گہرے اور مضر اثرات
مرتب کررہی ہے جس کا سب بڑا نقصان رائٹنگ پاور ( لکھنے کی صلاحیت ) میں حد
درجہ کمی واقعی ہونے لگتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دماغ اور انگلیوں کا ربط
کمزور پڑتا جاتاہے ۔اشیاء کو چھو کر محسوس کرنے کا عمل بھی متاثرہونے لگتا
ہے ۔ہاتھوں اور پٹھوں پر مضر اثرات کے علاوہ موبائل گیمز‘ ویڈیو اور اس سے
نکلنے والی آوازیں کان کے اندرونی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔سب سے
زیادہ خطرہ آنکھوں کی بینائی میں حد درجہ کمی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دور حاضر
کے بچوں کی بڑی تعداد بینائی کی کمی ‘ قوت سماعت کا تیزی سے کم ہونا اور
دیگر اعصابی بیماریاں تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں ۔طبی ماہرین کی آراء اور
عالمی ادارہ صحت کی تحقیق سے قطع نظر موبائل کو حاصل کرنے اور استعمال کرنے
کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ پہلے گھروں میں صرف ایک ہی پی
ٹی سی ایل کا فون ہوا کرتا تھا جو کبھی کبھار فون سننے یا فون کرنے کے لیے
استعمال ہوتا تھا لیکن موبائل کا شوق بلکہ جنون اس حد تک بڑھتا جارہا ہے کہ
ماں باپ کے علاوہ گھر میں جتنے چھوٹے بڑے افراد موجود ہیں، ان سب کے پاس
موبائل کا موجود ہونا( یہ کہتے ہوئے) ضروری ہے کہ موبائل رابطے کا بہترین
ذریعہ ہے ‘ سرکاری دفاتر ہو یا پرائیویٹ ادارے ہوں ‘ اوقات کار کا زیادہ
حصہ موبائل پر چیٹنگ ‘ مسیجنگ اور گیمیں کھیلنے میں صرف ہوتا ہے۔ افسر سے
لے کر ماتحت ملازمین تک ہر شخص جنون کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے
کہ پبلک ڈیلنگ والے محکموں میں موبائل کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ
کیاجاچکا ہے ۔لیکن کوئی اس مطالبے پر اس لیے کان دھرنے کو تیار نہیں کہ ذمہ
داران خود موبائل استعمال کرنے کے شوقین ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ
ہوگا کہ موبائل ہمارے معاشرے میں برتری کااظہار بن چکا ہے۔ ہر شخص کی کوشش
ہے کہ مہنگے سے مہنگا موبائل خرید ے تاکہ دوسروں پر رعب پڑے لیکن خود کو
دوسروں سے ممتاز کرنے کی دوڑ کاشکار ہوکر ہم ایک ایسی اندھی کھائی میں گرتے
جارہے ہیں جہاں صرف ہماری جان کو خطرہ نہیں بلکہ پورے خاندان کی صحت داؤ پر
لگی ہوئی ہے۔ |