ارشادِ ربانی ہے:’’ہم نے موسیٰؑ کو فرعون اور ہامان اور
قارون کی طرف اپنے نشانیوں اور نمایاں سندِ ماموریت کے ساتھ بھیجا مگر
انہوں نے کہا "ساحر ہے، کذاب ہے ‘‘۔ فرعون کا دستِ راست اس کا قریب ترین
وزیر اور بایاں ہاتھ بہت بڑا سرمایہ دار تھا۔ فی الحال وطن عزیز میں بھی
سربراہِ مملکت کی سرکارکا دارومدار ایک رفیقِ کاراور دوسرے سرمایہ دار پر
ہے، جس کا خزانہ دھنسا جارہا ہے۔ قارون کی بابت ارشادِ قرآنی ہے:’’یہ ایک
واقعہ ہے ۔ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف
سرکش ہو گیا ‘‘۔ یعنی دشمن اقتدار کا ہمنوا بن گیا ۔اس کے مال کی بابت
فرمانِ قرآنی ہے :’’ ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں
طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی ‘‘۔
قارون کو سمجھایا گیا : "پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا
، جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا
میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان
کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند
نہیں کرتا" ۔ یہاں مال پر گھمنڈنہیں کرنے، اس کو اللہ کی عطا کردہ امانت
سمجھ کر بندوں کے حقوق ادا کرنے اور فساد سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے۔
اپنی اصلاح کرنے کے بجائے وہ بولا : "یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر
دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے"۔ یعنی وہ مال و دولت اپنی صلاحیت کا
ثمرسمجھتا تھا۔ اس لیے سوال کیا گیا :’’ کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس
سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت
رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے‘‘
ارشادِ ِ قرآنی ہے :’’ ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں
نکلا جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے "کاش ہمیں بھی
وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے" فرعون کی
دولت و ثروت سے مرعوب ہوکر دنیا دار لوگ اس پر رشک کرنے لگے۔ اس کے برعکس
:’’ جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے "افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا
ثواب بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت
نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو" ۔ آگے قارون کےعبرتناک انجام کی منظر
کشی یوں ہے کہ:’’ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا
پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو
آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا‘‘۔ قارونِ وقت کے شیئرس بھی دھنسے
جارہے ہیں اور جس طرح قارون کوفرعون و ہامان نہیں بچا سکے یہی صورتحال اب
بھی ہے۔ ہر کوئی بے بس ولاچار ہے۔
قارون کے انجام ِبد نے دنیا داروں کو جھنجھوڑ دیا :’’ اب وہی لوگ جو کل اس
کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے "افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ
اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا
تلا دیتا ہے اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں
دَھنسا دیتا افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے"۔ اس طرح
ظالموں کے انجام بد سامانِ عبرت بن جاتاہے۔آگے رب کائنات کی بشارت ہے کہ :
’’ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی
بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھَلائی متقین
ہی کے لیے ہے‘‘۔ آخر میں یہ اصولی فرمان جاری کردیا گیا کہ بروزِ قیامت
:’’ جو کوئی بھَلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھَلائی ہے، اور جو
بُرائی لے کر آئے تو بُرائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل
وہ کرتے تھے ‘‘۔
موسیٰ ؑ کے مخاطبین کی ترتیب میں قارون کا نام سب سے آخر میں ہے مگر انجام
بد کے ذکرکی ابتداء اسی سے ہے فرمایا:’’ قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے
ہلاک کیا موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی
بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے‘‘۔ یہ حسن اتفاق ہے
فی زمانہ بھی قارونِ وقت کی باری پہلے آگئی ۔ اس کا سامراج جو20ستمبر 2022
کو156.3 بلین ڈالرپرتھا اچانک یکم فروری 2023 تک نصف سے کم 74.4 بلین ڈالر
تک آگیا۔ اگلی آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے عذاب کی شکلیں بدلتی رہتی
ہیں :’’ آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی
پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ
لیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا اللہ اُن
پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے ‘‘۔ خیر
وقت کا قارون تو دھنس رہا ہے اب فرعون و ہامان کے ڈوبنے کا انتظار ہے ۔
فیصلے کی گھڑی رب کائنات کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
|