شرم و حیا،عفت و پاکیزگی ایک مسلمان کی بنیادی شناخت
اور اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔اسلام نے جو معاشرتی نظام تشکیل دیا ہے،اس
میں شرم و حیا اورعفت و پاکیزگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔خاتم الانبیاء
حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’حیا‘‘ایمان کا ایک بنیادی شعبہ ہے
اسی بنیاد پر فرمایا گیاجب تم حیا کو کھودو،تو جو چاہے کرو۔یعنی انسانی
زندگی سے اگر شرم و حیا معدوم ہوجائے تو ایسی زندگی کی کوئی قدرومنزلت نہیں
اس لیے کہ شرم و حیا اسلامی معاشرے کے لازمی جزو ہیں اسلامی تہذیب وثقافت
اور مسلم معاشرہ برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے۔ دنیا میں
اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب بے حیائیوں پر روک لگانے والا نہیں۔ قرآن و حدیث
میں فحاشی کی بنیاد یعنی آنکھ کی بے احتیاطی کو سختی سے قابو میں رکھنے کی
تلقین کی گئی ہے، یہ ایسی بنیاد ہے اگر صرف اس پر ہی قابو پالیا جائے تو
ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہوسکتی ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے نبی ﷺ!
مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت
کریں۔ اﷲ جل شانہ فرماتے ہیں اے نبی ﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں(سورۃ النور)سورۂ احزاب
میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا تم اپنے گھروں کے اندر رہو
اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں
عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں،حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ کا
ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص مجھ سے
ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا، میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت
وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب ناک بنا دیتی ہے اور شرم و
حیا کسی میں ہوتی ہے تو اُسے زینت دیتی ہے(سنن ترمذی) حضرت ابوہریرہ ؓسے
روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: حیا ء ایمان کاحصہ ہے اور ایمان جنت میں
لے جانے والا ہے،جب کہ بے حیائی ظلم میں سے ہے اور ظلم جہنم میں لے جانے
والا ہے(سنن ترمذی)رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’نظر شیطان کے تیروں میں سے
ایک زہریلا تیر ہے، جو اس کی اﷲ کے خوف سے حفاظت کرے، تو اﷲ اس کے عوض اسے
ایسا ایمان عطا کرے گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔(الترغیب و
الترہیب۲۴/۳)کسی غیرمحرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص جبکہ بدنظری کے ساتھ نگاہ
ڈالی جائے،خواہ غیرمحرم کی تصویر ہی کیوں نہ ہو اور ایسی چیز کو دیکھنا جس
سے شریعت نے روکا ہو۔اس سے اجتناب دین کا بنیادی تقاضا ہے۔بدنظری بہت سے
حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں،وہ حرام کام
آدمی کورسوا کردیتے ہیں، جو کبھی عزت والا تھا آج وہ کہیں منہ نہیں
دکھاسکتا۔ بدنظری سے بچ کر آدمی سیکڑوں گناہوں اور آفتوں سے محفوظ رہ سکتا
ہے۔اسلام خواتین کو وہ عزت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو درحقیقت مغرب کو میسر
نہیں ہے جب کہ کچھ بد نصیب خواتین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغرب کی عورت
آزاد ہے بلکہ میری نظر میں مغرب کی عورت سے زیادہ مظلوم کوئی عورت نہیں ہے
لیکن ہم صحیح اور غلط جانے بغیر مغرب کی اندھا دھند تقلید پر کیے جارہے ہیں
ویلنٹائن ڈے آئے گا تو ایک دھوم مچ جائے گی ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر
ویلنٹائن ڈے کے نام پر اپنی شرم و حیا کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔ ارے
ہمیں تو اس شرم و حیا کا پیکر بن جانا چاہیے‘ ہمیں تو اسلام نے فلاح کا
راستہ دکھایا ہے‘ فلاح و کامیابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو دینی تعلیمات پر
عمل پیرا ہے۔ حجاب پردہ حیا یہ سب میرے اﷲ کا حکم ہے تو پھر کیوں نہ اس کی
تعمیل کروں میں کیوں نہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کروں آخر ہم حقوق نسواں کے
نام پر کون سی آزادی چاہتے ہیں؟ بے حیائی کو پروموٹ کرکے ہم کون سے حقوق
حاصل کرنا چاہتے ہیں؟حیا ایمان کی علامت ہے،پاکیزگی کی علامت ہے اور اﷲ
پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے حیا ایمان کی تکمیل ہے، جس شخص میں حیا ہے تو اس
میں ایمان بھی موجود ہے اور جس میں حیا نہیں تواس میں ایمان بھی موجود نہیں
کیونکہ شیطان کا پہلا وار حیا پر ہوتا ہے،حضور اکرمﷺ نے ایک دفعہ پوچھا کہ
’’اے فاطمہ! مسلمان عورت کی سب سے بڑی صفت کیا ہونی چاہیے؟حضرت فاطمہؓ نے
جواب دیا کہ ’’ابا جان! عورت کو چاہیے کہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے
اور اولاد پر شفقت کرے اپنی نگاہ نیچی رکھے اپنی زینت چھپائے اور نہ خود
کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھنے پائے،حضورﷺ یہ جواب
سن کر بہت ہی مسرور ہوئے۔ کتنا پیارا جواب تھا جانِ پدر کا اور ہم سب کے
لیے کتنی پیاری نصیحت بھی۔ ہم خواتین کے سامنے ہماری صحابیاتؓ کی طرز زندگی
ہے۔ جگہ جگہ قرآن کریم میں ارشادات کے ذریعے ہمارے لیے رہنمائی ہے پھر تو
ہمارے پاس بھٹکنے کا کوئی معقول جواز ہے ہی نہیں۔ پس تو پھر ہمیں آج سے عہد
کرنا ہے کہ ہم کو مغربی روایات کو ختم کرکے حیا کو فروغ دینا ہے۔ ویلنٹائن
ڈے کی مخالفت میں ہمیں یوم حیا سے اپنی نسلِ نو کو آشنا کرنا ہے۔ بے حیائی
کے سیلاب سے خود کو بھی بچانا ہے اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دینی
ہے۔حضورﷺنے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان
کی ایک شاخ ہے،اس تہوار کا اسلامی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کو
لبرل،سیکولر اور آزاد خیال سمجھنے والے لوگ مناتے ہیں لیکن مذہبی سوچ کے
حامل لوگ اسے ’’یوم حیا‘‘کے طور پر منا ئے اور بے حیائی اور فسق والی زندگی
سے توبہ کر کے شریعت کے احکامات کی پابندی اور پاکیزہ اسلامی زندگی گزارنے
کا عزم کریں۔حیا ایمان کا حصہ ہے با حیا زندگی ایمان کا حسن ہے اور اسکا
کلچر عام کرنے کے لیے خود احتسابی کرنی ہوگی اپنی زندگی کو سنت کے مطابق
ڈھالنا ہوگا۔
|