ایک عالمی اقتصادی پاور ہاؤس

حالیہ چند برسوں میں دیکھا جائے تو چین نے دنیا کو جدیدیت کے ایک نئے تصور سے روشناس کروایا ہے۔یہ ایک ایسا نکتہ نظر ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کی جدیدیت کی جانب حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اُن کے سوچ اور نظریات کو وسعت دی گئی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ چین نے انسانیت کے لئے ایک بہتر معاشرتی نظام کی تلاش میں مدد کی خاطر ایک چینی حل فراہم کیا ہے.اس حوالے سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20 ویں نیشنل کانگریس کی رپورٹ میں بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ مشترکہ خوشحالی کا حصول چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم کی ایک واضح خوبی ہے۔انہی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے چین نے 2021 میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 98.99 ملین دیہی باشندوں کو غربت سے باہر نکالا ہے اور تمام 832 غریب کاؤنٹیوں اور ایک لاکھ اٹھائیس ہزار دیہاتوں کو غربت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔چین کی اس بے مثال کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئےاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ غربت کے خاتمے میں چین کی عظیم کامیابیاں "غربت میں ڈرامائی کمی کے لئے سب سے بڑی شراکت" ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں میں، چین میں لوگوں کی زندگیوں میں حیرت انگیز طور پر بہتری آئی ہے. تقریباً 70 سال پہلے چین بنیادی طور پر ایک زرعی ملک کہلاتا تھا اور آج بھی اپنی اس پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے پاس دنیا کا سب سے وسیع سماجی فلاحی نظام ، سب سے بڑا تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک اور بہت سے شعبوں میں جدید ترین ٹیکنالوجیز کا نیٹ ورک ہے۔گزشتہ دہائی میں چین کی جی ڈی پی 54 ٹریلین یوآن سے بڑھ کر آج 120 ٹریلین یوآن سے زائد ہو چکی ہے اور عالمی معیشت میں اس کا حصہ 7.2 فیصد پوائنٹس اضافے کے ساتھ 18.5 فیصد ہے۔آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اور اس کی فی کس جی ڈی پی 39،800 یوآن سے بڑھ کر 81،000 یوآن ہوگئی ہے۔
یہ امر بھی غورطلب ہے کہ چین ایک جامع انداز سے جدت کاری کی پیروی کر رہا ہے۔ملک نے مادی اور ثقافتی اخلاقی ترقی کو مربوط کیا ہے، معاشی، سیاسی، ثقافتی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کو فروغ دیا ہے، اور ایک نئے ترقیاتی فلسفے پر عمل کیا ہے جو جدت طرازی، ہم آہنگی، سبزپن، کھلے پن اور اشتراک کو اجاگر کرتا ہے. یہ تکنیکی شعبے میں چین کا کھلا پن ہی ہے جس کی روشنی میں چین نے 160 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ سائنسی اور تکنیکی تعاون قائم کیا ہے، سائنسی اور تکنیکی تعاون پر 114 بین الحکومتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، اور تقریباً 60 بین الاقوامی اہم سائنسی تحقیقی منصوبوں میں حصہ لیا ہے.

مزید برآں ، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور تعاون کو بڑھانے کے لئے اپنے کھلے پن کو اعلیٰ سطح تک بڑھایا ہے۔ملک نے 21 پائلٹ فری ٹریڈ زونز کی تعمیر کو آگے بڑھایا ہے اور 149 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انوویشن ایکشن پلان پر گہرائی سے عمل درآمد کے حوالے سے چین فعال طور پر سائنسی اور ثقافتی تبادلوں، مشترکہ لیبارٹریوں کے قیام، سائنس اور ٹیکنالوجی پارکس میں تعاون اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر سینٹرز کی تعمیر کے لیے چار ایکشن پلانز کو فروغ دے رہا ہے۔اس دوران چین نے تین بیچوں میں 53 بیلٹ اینڈ روڈ مشترکہ لیبارٹریوں کی تعمیر کا آغاز کیا ہے، 35 سو سے زائد نوجوان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیق کے لئے چین آنے میں مدد کی ہے، 15 ہزارسے زائد غیر ملکی سائنسی اور تکنیکی عملے کو تربیت دی، اور تقریباً دو ہزار ماہرین کو تحقیق کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے.

اسی طرح ماحولیاتی تحفظ کے اعتبار سے کم کاربن ترقی کو نمایاں اہمیت دیتے ہوئے ، چین نے 2030 سے پہلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کو عروج پر لانے اور 2060 سے پہلے کاربن نیو ٹرل حاصل کرنے کے ہدف کا اعلان کیا ہے، جو چین کے ماحول دوست رویوں کو بخوبی اجاگر کرتے ہیں۔چین کے جدیدیت کے سفر میں پرامن ترقی بھی ایک ممتاز خوبی ہے۔چین نے انتھک محنت کے ذریعے جدیدیت کی جانب پیش قدمی کی ہے ، اور عالمی سطح پر جیت جیت تعاون کی راہ ہموار کی ہے۔اس مقصد کے لیے چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کو آگے بڑھایا ہے اور انسانیت کے لیے ایک ایسی کمیونٹی کی تعمیر پر زور دیا ہے جس کا مشترکہ مستقبل ہو۔وسیع تناظر میں آج چین پرامن ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے ایک عالمی اقتصادی پاور ہاؤس بن گیا ہے، جو دنیا بھر کے لیے کشش اور ثمرات کا باعث ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1324 Articles with 615416 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More