میری بیٹی کی جگہ اگر آپ کی بیٹی بیمار ہوتی تو تب بھی کیا یہی کرتے، ایک دکھی باپ کا پرائیویٹ ہسپتال کی انتظامیہ سے سوال ویڈيو وائرل

image
 
جس طرح ہمارے ملک میں اچھی تعلیم کے لیے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں تاکہ آنے والے وقت میں ان کے بچے ملک کے کامیاب شہری بن سکیں تو اسی طرح علاج کے معاملے میں بھی سرکاری ہسپتالوں کی خراب صورتحال کے سبب شہری اپنی جان بچانے کے لیے نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں-
 
یہ ایک الگ بات ہے کہ مسیحائی کا یہ شعبہ بھی ابن الوقت افراد کے ہاتھوں ایک کاروبار بن گیا ہے اور ہسپتال میں آنے والا ہر شخص مریض کے بجائے ان کو ایک اسامی یا گاہک لگتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں-
 
یہی وجہ ہے کہ ہر پرائیویٹ ہسپتال کے ساتھ اس کی اپنی ذاتی لیبارٹری ہوتی ہے جس کے علاوہ کسی اور کے ٹیسٹ وہ قبول نہیں کرتے ہیں اور ایسے ہسپتالوں کے ڈاکٹر جو ادویات لکھ کر دیتے ہیں وہ ادویات بھی ان کے قریبی میڈیکل اسٹورز کے علاوہ کہیں اور میسر نہیں ہوتی ہیں- دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اب ڈاکٹری اور نجی ہسپتال قائم کرنا بھی ایک دھندہ ہے مگر گندہ ہے جو کہ عوام کا خون چوس کر جاری رکھا جا رہا ہے-
 
image
 
ایک باپ کی فریاد
حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک باپ کی ویڈيو وائرل ہو رہی ہے جو کہ لاہور کے فاطمہ میموریل ہسپتال میں بنائی گئی ہے۔ یہ بندہ اپنی نوجوان بیٹی کو کسی بیماری کے سبب جب اپنی جیب کاٹ کر فاطمہ میموریل ہسپتال لے کر گیا تو حسب معمول وہاں کے ڈاکٹروں نے پہلے تو اس کے ہاتھ میں ٹیسٹوں کی ایک طویل لسٹ تھما دی تاکہ اس کی بیٹی کی بیماری کی تشخیص کی جا سکے-
 
بیٹی کی محبت میں گرفتار یہ شخص یہ ٹیسٹ کروا کر آیا تو اس کو دواؤں کی ایک پرچی تھما دی گئی وہ پہلی دوا لے کر آیا تو اس کے ہاتھ میں دوسری دوا کی پرچی تھما دی-
 
جب اس نے وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں سے استفسار کیا کہ گزشتہ 36 گھنٹوں سے وہ لوگ اس کی بیٹی کے ٹیسٹ کروا رہے ہیں اور اس کا علاج کر رہے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی بیٹی کو کیا بیماری ہے تو اس موقع پر ڈاکٹر اس کے اس طرح سوال پوچھنے پر ناراض ہو گئے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کا علاج نہیں کریں گے کیوں کہ وہ آدمی بہت شور مچا رہا ہے اور ان کو بہت تنگ کر رہا ہے-
 
اگر تمھاری بیٹی میری بیٹی کی جگہ ہوتی تو کیا تب بھی چپ رہتے
اس موقع پر اس شخص کو انتظامیہ نے پہلے تو سیکیورٹی گارڈ کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی مگر جب ان کی دال نہ گلی تو انتظامیہ سے کچھ ڈاکٹر سامنے آئے ان کا یہ کہنا تھا کہ معمولی سے مسئلے کو یہ شخص بڑا بنا رہا ہے-
 
 
مگر اس شخص کا یہ کہنا تھا کہ یہ لوگ جو سلوک میری بیٹی کے ساتھ کر رہے ہیں کیا میری بیٹی کی جگہ ان کی بیٹی ہوتی تو کیا یہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے-
 
اس موقع پر موجود دیگر مریضوں کے لواحقین کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا کیا جا رہا ہے اور بل بنانے کے لیے بڑے بڑے ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں اور مریضوں کا مناسب علاج کرنے کے بجائے ہسپتال انتظامیہ کی یہی کوشش ہے کہ زيادہ سے زيادہ بل بنا کر پیسے کمائے جائيں-
 
یاد رہے کہ یہ کسی ایک ہسپتال کا وطیرہ نہیں ہے بلکہ سارے ہی پرائیویٹ ہسپتال اسی اصول کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں جہاں پر نارمل ڈلیوری کے بجائے سی سیکشن کر دیا جاتا ہے اور اسی طرح سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر ان کی جیبوں پر ڈاکہ مارا جاتا ہے-
 
اس بچی کے والد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ وہاں موجود غریب مریضوں کے لیے بھی آواز اٹھا رہا ہے جو اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے پرائیویٹ ہسپتال لے تو آتے ہیں مگر اپنی ساری جمع پونجی ان ڈاکوؤں کے حوالے کر دیتے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: