چین میں ٹیکنالوجی کی مختلف جہتوں کے اطلاق کی بات کی
جائے تو یہ صرف معیشت یا سماج تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کی جانب سے مختلف
نوعیت کی اعلیٰ ٹیکنالوجیز کی مدد سے اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کی کوششوں
کو بھی نمایاں انداز سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔حالیہ عرصے میں اس کی بہترین
مثال چین کے شمال مغربی صوبہ گانسو کا شہر تون ہوانگ ہے ، جو ایک طویل
تاریخ اور شاندار ثقافتی ورثے کے ساتھ شاہراہ ریشم پر واقع مقدس اور ثقافتی
مرکز ہے۔اس شہر میں 1600سالہ قدیم موغاو غار ہیں جنہیں یونیسکو نے اپنا
عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔یہاں بدھ مت کے فن پاروں کا وسیع خزانہ
موجود ہے جس میں 02 ہزار سے زائد رنگ دار مجسمے اور 45ہزار مربع میٹر
میورلز شامل ہیں ، جبکہ یہاں غاروں کی تعداد بھی 735 ہے۔
محققین کئی دہائیوں سے اسے قدرتی یا انسانی عوامل کی وجہ سے ہونے والے
نقصان سے بچاؤ کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تون ہوانگ اکیڈمی نے
1990 کی دہائی میں موغاو غاروں اور دیگر ثقافتی آثار کے ڈیجیٹل ورژن بنانے
کے لئے اپنے ڈیجیٹلائزیشن منصوبے کا آغاز کیا اور بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل
ثقافتی وسائل کو یکجا کیا ہے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے میورلز ، غاروں ،
مجسموں اور دیگر شاندار ثقافتی ورثے کو عمدگی سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے اور
آج یہ دنیا کے ساتھ اشتراک کرنے کے قابل ہیں۔آن لائن ریسورس ڈیٹا بیس
ڈیجیٹل تون ہوانگ کا چینی ورژن یکم مئی 2016 کو آن لائن ہوا ، جس نے 30 تون
ہوانگ غاروں کے ہائی ریزولوشن ڈیجیٹل وسائل اور ورچوئل دوروں کی سہولت
فراہم کی۔ انگریزی ورژن ستمبر 2017 میں دستیاب ہوا اور جولائی 2022 تک
امریکہ، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت 78 ممالک کے صارفین نے اس تک
رسائی حاصل کی ہے، آج ڈیجیٹل ڈیٹا بیس کو دنیا بھر میں 15.6 ملین سے زائد
ویوز مل چکے ہیں۔بلاکچین ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ثقافتی ورثہ ڈیجیٹل پلیٹ
فارم بھی دسمبر 2022 میں لانچ کیا گیا ، جس نے دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ
ہائی ڈیفینیشن مواد کے ساڑھے چھ ہزار عناصر کی ڈیجیٹل رینڈرنگ کا اشتراک
کیا ۔اس کے علاوہ 2020 میں فعال ہونے والی میورلز اور قدیم کھنڈرات کے تحفظ
سے متعلق چین کی پہلی ملٹی فیلڈ کپلنگ لیب نے بھی بین الاقوامی مشترکہ
تحقیق کا آغاز کر دیا ہے۔تون ہوانگ شہر میں واقع یہ لیب 16 ہزار مربع میٹر
کے رقبے پر محیط ہے۔کنٹرولڈ ماحول کے ساتھ یہ لیب آئندہ ملک بھر میں ثقافتی
ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گی۔
تون ہوانگ کی قدیم ثقافت کا تحفظ اور احیاء چین میں کوئی واحد "کیس" نہیں
ہے۔ملک کے شمال مغربی صوبہ شانسی کے شہر شی آن کی قدیم دیوار کی تاریخ 1400
سال سے زائد ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگس، بگ ڈیٹا اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے اطلاق سے
یہاں ثقافتی آثار کی حفاظت کے لئے بہت کوششیں کی گئی ہیں۔شہر کی دیوار پر
3,090 مانیٹرنگ پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی خرابی کی صورت میں
حقیقی وقت میں اس کی حالت پر نظر رکھی جا سکے۔اس طرح ثقافتی آثار قدیمہ پر
سیاحتی سرگرمیوں کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے بھی لازمی اقدامات کیے
گئے ہیں۔
چین کی اعلیٰ قیادت کی ثقافتی آثار میں دلچسپی کی بات کی جائے تو صدر شی جن
پھنگ کہتے ہیں کہ تون ہوانگ شہر سے جنم لینے والی عظیم ثقافت چینی قوم کے
اپنی شاندار ثقافت پر اعتماد کو ظاہر کرتی ہے ، کیونکہ اس شہر کو طویل عرصے
سے نہ صرف قدیم چینی ثقافت کا خزانہ سمجھا جاتا ہے بلکہ قدیم شاہراہ ریشم
پر متنوع تہذیبوں کے انضمام کا بھی گواہ سمجھا جاتا ہے۔انہوں نے 2019 میں
صوبہ گانسو کے دورے کے دوران خاص طور پر تون ہوانگ میں موغاو غاروں کو
دیکھا اور ایک سمپوزیم میں ماہرین سے بات چیت کرتے ہوئے چینی ثقافت کے تحفظ
کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششوں پر زور دیا۔ تون ہوانگ میں موجود ہزاروں سالہ
قدیم میورلز چینی تاریخ کو دوبارہ تخلیق کرنے والی تصاویر کی مانند ہیں
۔ساتھ ساتھ یہ مختلف تہذیبوں کے مابین ثقافتی انضمام اور باہمی سیکھنے کو
بھی ظاہر کرتی ہیں۔ صدر شی جن پھنگ کے نزدیک صرف ایک پراعتماد تہذیب ہی
اپنی قومی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف تہذیبوں کو برداشت اور جذب
کر سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ چین کی عمدہ روایتی ثقافت جیسے
تون ہوانگ کے روایتی آرٹ کو ہمیشہ فروغ دینے کی بات کی ہے ، تاکہ دنیا اس
نایاب ثقافتی ورثے کے بارے میں جان سکے۔انہوں نے متعدد مواقع پر بیلٹ اینڈ
روڈ انیشی ایٹو کی تعمیر کو عمدگی سے آگے بڑھانے اور بیلٹ اینڈ روڈ کے
راستوں پر چین اور متعلقہ ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں کو مزید فروغ
دینے کے لئے تون ہوانگ ثقافت کے مطالعہ کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
ایک وسیع و عریض ملک کی حیثیت سے، چین متنوع ثقافتوں کا گھر ہے. کئی لوک
ثقافتیں سالوں کے دوران ابھرکر سامنے آئی ہیں ، جن میں سے ہر ایک کا اپنا
ایک تاریخی مقام ،منفرد خوبیاں اور معاشرے کی ترجمانی ہے۔چین میں تون ہوانگ
جیسی شاندار ثقافت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تہذیبیں کھلے پن سے پھلتی پھولتی
ہے اور قومیں تبادلے کے ذریعے ترقی کرتی ہیں۔
|