ٹرانس جینڈر بل جس طرح پاس ہوا اور جس سازشی نیت کے ساتھ
اِسے پاس کر وایا گیا،اُس میں جتنی قصو ر وار سیاسی جماعتیں ہیں ، اِتنی ہی
قصور وار پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی ہیں ۔ جو آج اس بات کو ڈھال بنا کر
خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اُنہیں اندھیرے میں رکھا
گیا اور اُن سے حقیقت چھپائی گئی ۔ پانچ سال قبل 2017 میں ٹرانس جینڈر یعنی
تبدیلی جنس کے نام سے قومی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں ہم
جنس پرستوں کو قانونی تحفظ دینے کیلئے ٹرانس جینڈربل پیش کیا، تو ملک کی
تمام سیاسی پارٹیوں سمیت تمام لبرل پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات
بھلا کر اس بل کی حمایت کی اور بل قومی اسمبلی و سینیٹ سے متفقہ طور پر
منظورکر ا کراسے 2018 میں باقاعدہ ایکٹ اور قانون بنا دیا گیا۔ اس وقت
چونکہ حکومت کا آخری سیشن تھا اور اسمبلیاں تحلیل ہونے والی تھیں، لہٰذا
یہ بل میڈیا میں زیر بحث نہ آسکا۔اب اس بل کے خلاف سینیٹر مشتاق احمد خان
نے ترمیمی بل پیش کیا تو ایجنڈے پر آنے کی وجہ سے اس قانون کے غلط استعمال
پر آواز اٹھائی گئی اور یوں اس قانون کے تمام بھیانک حقائق سامنے آگئے
ہیں ۔ اس وقت اس ایکٹ کے خلاف دینی حلقوں اور عوام الناس میں کافی تشویش
پائی جاتی ہے۔ یہ ایکٹ نہ صرف اسلامی اُصولوں کے خلاف ہے بلکہ دستور
پاکستان کے خلاف بھی ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے گناہ کبیرہ کو
قانونی تحفظ فراہم کرنا اور اللہ کے عذاب کو کھلم کھلا دعوت دینا ہے۔اس
ناپاک سازش میں مذہبی جماعتوں کی خاموشی اور اِسے پاس کرانے میں اُن کا
کردار مجرمانہ اور منافقانہ ہے۔
گو اس قانون میں بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق درج ہیں، جس پر مجھ سمیت کسی کو
اعتراض نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کون ہے ،یہ جاننااہم ہے۔ کیا
یہ خواجہ سرا اور ہیجڑے ہیں یا ان میں فرق ہے۔ اس بل میں ٹرانس جینڈر کی
تین تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔ وہ آدمی جس کے اعضاء میں پیدائشی ابہام ہے
،یہ تعریف خواجہ سراء کی ہے اور اس کیلئے درست لفظ انٹرسیکسں ہے۔ وہ شخص جو
مکمل مرد ہے کسی وجہ سے مثلاً ایکسیڈنٹ یا کوئی دوا کی وجہ سے مردانہ
صلاحیت سے محروم ہو جائے۔ تیسری تعریف یہ ہے کہ ایسے افراد جو پیدائشی طور
پر مکمل مرد یا عورت کی جنس ہوں مگر بڑے ہوکر کسی نفسیاتی اُلجھن یا
معاشرتی دباؤ، ٹرینڈ یا ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش
ہیں، تو وہ بھی ٹرانس جینڈر کے کیٹگری میں آتے ہیں۔
ان تینوں تعریفوں میں صرف خواجہ سراؤں کی تعریف درست ہے اور باقی دو
تعریفوں میںسقم ہیں اور اِن کا مقصد ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ فراہم
کرنا ہے۔ اس ایکٹ میں اصولی غلطی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو جنس مرد اور
عورت بنائے ہیں۔ تیسری کوئی جنس نہیں بنائی لیکن اس ایکٹ میں خواجہ سراؤں
کو تیسری جنس کے طور پر پیش کیا گیا ہے، حالانکہ خواجہ سراء شرعی رو سے
معذورین کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔اس ایکٹ کی تعریفوں میں کئی خامیاں ہیں۔
جیساکہ ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی منفی خرابی نہیں ہے، یہاں تک کہ
وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے مگر اسکی خواہش ہے کہ وہ ایک عورت کی طرح
پہچانا جائے تو وہ بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ، ڈاکٹر اور سرٹیفکیٹ کے، اس ایکٹ
کی شق نمبر 3 اور سب شق نمبر 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ کسی بھی حکومتی
ادارے میں خود کو بحیثیت عورت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے یا چاہے تو ٹرانس جینڈر
بھی رجسٹرڈ ہو سکتاہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مرد جو حکومتی کاغذات میں اب
عورت رجسٹرڈہے ،اورکسی دوسرے مرد سے شادی بھی کرسکتاہے۔عورتوں کیلئے مختص
تمام جگہوں، ٹوائلٹ، وومن یونیورسٹی، سوئمنگ جاسکتا ہے، عورتوں کے تمام
قوانین اس پر لاگو ہوں گے۔
دوسر ی جانب ایک عورت جو پیدائشی طور پر عورت ہے، مرد رجسٹرڈ ہو کر وراثت
میں اپنا حصہ دگنا کروا سکتی ہے، تو یہ اسلام کے قانون وراثت اور اللہ
تعالیٰ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔اس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں
جو تباہی آئے گی وہ ناقابل بیان ہے، نیز ہم جنس پرستی کا طوفان پورے
معاشرے کو گھیر لے گا اور خدانخواستہ ہم پر بھی قوم لوطؑ کی طرح عذاب نازل
نہ ہو جائے۔
میں حکمرانوں او ر خود ساختہ طور پر اندھیرے میں رہنے والی مذہبی جماعتوں
کو یہ باور کرانا چا ہتا ہوں کہ وہ بے شک لاکھ اندھیرے میں رہیں یا خواب
خرگوش کے مزے لیتے رہیں ، لیکن پاکستان کی بائیس کروڑ عوام جاگ رہی ہے اور
وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امریکہ ، برطانیہ یایورپ نہیں بننے دے گی ۔
اس احتجاجی مظاہرے میں ہم حکمرانوں کو بتائیں گے کہ پاکستان میں ہم اسلام
کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیںہونے دیں گے ۔ لہٰذا اس ناپاک بل کے حوالے سے
نام نہاد سیکولر طبقہ اور روشن خیال سیاسی جماعتیں جان لیں کہ اس ایکٹ کو
تحفظ دینے کا مطلب ہمارے ملک میں ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا
اور ہمارے دینی اساس، خاندانی نظام، نکاح، قانون وراثت اور اسلامی تہذیب و
نظریاتی سرحد پر حملہ کرنا ہے، لیکن ہم اپنے ملک کے نظریاتی سرحدوں کے
محافظ ہیں اور اس مذموم سازش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
سینیٹ میں سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس ایکٹ کے خلاف ترمیمی بل پیش
کیا ہے اور اس پر ایک اجلاس بھی ہوچکا ہے اور دوسرا اجلاس اکتوبر میںہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترامیم یہ ہیں کہ اس قانون میں ٹرانس جینڈر پرسن
کی تعریف نمبر 2 اور 3 جس میں مکمل مرد و عورت کو ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا
ہے وہ ختم کیاجائے۔دوسری ترمیم یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کیلئے جنس کا تعین
Self Perceived Gender Identity کے بجائے میڈیکل بورڈ سے مشروط کیا
جائے۔میں حکومت سے پُرزور اپیل کرتا ہوں کہ اِ ن شرائط کو تسلیم کیا جائے
اور ٹرانس جینڈر کے خلاف ترمیمی بل کو فوراً منظور کرتے ہوئے اِسے دوبارہ
نافذالعمل بنایا جائے اور وہ تمام نکات جو اسلام سے متصادم ہیں اُنہیں اس
قانون سے نکال کر اس ملک خدا داد کی سرحدوں سے اُٹھا کر باہر پھینکا جائے،
کیونکہ اسی میں ہماری عافیت اور خدا کی خوشنودی شامل ہے ۔
|