فضائل و مناقب
کاتب وحی ،صحابی رسول،خلیفۃ المسلمین ،جرنیل اسلام ،فاتح عرب وعجم ،امام
تدبر وسیاست ،محسن اسلام
سیدناامیر معاویہ ؓبن ابی سفیان ؓ
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کو نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی ۔یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کی
آنکھیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیض دیدار سے منور ہوئیں اور جنہیں آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نے جلا بخشا اور جنہوں نے اسلام اور پیغمبر
اسلام کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی وہ اخلاص وﷲیت کے پیکر مجسم تھے ،وہ
ایسے عاشق رسول تھے کہ ان کی داستان عشق وفدائیت تاقیامت تروتازہ رہے گی ۔انہوں
نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر محبت ووار فتگی کے لیے ایسے نمونے چھوڑے کہ
رہتی دنیا تک یہ مشام جان کو معطر کرتی رہیں گی ،صحابہ رضی اﷲ عنہم کی شان
میں قصیدہ خوانی کرتے ہوئے حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اﷲ عنہم کی ایسی شان دیکھی ہے کہ
میں تم سے کسی کو ان کے مشابہ نہیں پاتا ،وہ صبح اس حال میں نظر آتے کہ ان
کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ،غبار آلود ہوتے ،رات انہوں نے سجدے اور قیام میں
گذاری ہوتی ،کبھی اپنی پیشانیوں پر جھکے ہوتے تھے ،کبھی اپنے رخساروں پر ،قیامت
کی یاد سے ایسے بے چین نظر آتے تھے جیسے انگاروں پر کھڑے ہوں ،ان کی پیشانی
(کثرت ِ طول سجود سے) ایسی سخت وخشک معلوم ہوتی تھی جیسے بکری کی ٹانگ ،اﷲ
کا نام لیا جاتا تو ان کی آنکھیں ایسی اشک بار ہوجاتیں کہ ان کی گریبان
ودامان تر ہوجاتے اور وہ اس طرح سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں لرزتے
ہوئے نظر آتے ،جیسے تیز آندھی کے وقت درخت ،ان کی آنکھیں فرطِ گریہ سے سفید
تھیں ۔ان کے پیٹ روزوں کی وجہ سے پیٹھ سے لگے ہوئے ہوتے ،ان کے ہونٹ دعا سے
خشک ہوتے ،ان کے رنگ بے خوابی اور بیداری کی وجہ سے زرد ہوتے ،ان کے چہروں
پر اہل خشیت کی اداسی ہوتی ،یہ میرے وہ بھائی ہیں جو دنیا سے چلے گئے ،ہم
کو حق ہے کہ ہم میں ان سے ملنے کی پیاس پیدا ہو اور ہم ان کی جدائی پر ہاتھ
ملیں ‘‘ ۔
یہ وہ محبوب جماعت ہے جسے دنیا ہی میں رضائے الہٰی کا پروانہ عطا کیا گیا ،قیامت
تک آنے والے لوگوں کے لیے ایک عظیم واسطہ ہیں کہ ان کے بغیر دین وشریعت
نامکمل ہے ،امت کو دین وایمان کا سرمایہ انہی مقدس نفوس کے واسطے سے ملا ،اگر
خیر القرون میں ان کی محبتیں اور قربانیاں نہ ہوتیں تو آج نہ جانے امت
مسلمہ زیغ وضلالت کی کن کھائیوں میں جاگرتی ،حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی
اسی رفعت ِ شان اور عالی مرتبت صفات کے سبب ہر دور کے علمائے حق نے صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم سے عقیدت ومحبت کو ایمان کا جزوقرار دیا ہے ،ان سے محبت
حب نبوی کی دلیل ہے اور ان سے بغض ونفرت نبی سے بغض وعداوت کے مترادف ہے ۔
انہیں میں سے ایک چمکتا ستارہ سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ بھی ہے۔سیدنا
امیر معاویہ ؓ والد کا نام ابوسفیان ؓبن حرب اور والدہ کا نام ہندؓ بنت
عتبہ تھا۔آپ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے تھا ۔آپ کا نسب پانچویں
پشت میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔حافظ ابن حجر ؒ نے الاصابہ
میں حضرت امیر معاویہؓ کا اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ میں صلح حدیبیہ کے بعد
۷ ہجری میں عمرۃ القضاء سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا ۔اور ابن کثیر ؒ نے
الہدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے
اسلام کا اظہار فرمایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو مرحبا کہا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم چونکہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے سابقہ حالات زندگی اور
ان کی صلاحیت وقابلیت سے آگاہ تھے ،اس لئے انہیں خاص قرب سے نوازا ۔حضرت
امیر معاویہ ؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔حضرت امیر معاویہ
ؓ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفر وحضر میں
بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ وہ عظیم انسان
ہیں کہ جس کے بارے میں پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ قول ہے کہ:
میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے راستے میں بیٹھا رہوں (کہ سامنے سے
انکی سواری آجائے )اور ان کے گھوڑے کے پیر کی دھول اُڑ کر مجھ پر پڑھ جائے
تو میں سمجھوں گا کہ یہی میری نجات کا وسلیہ ہے ۔( ماخوذ ازغنیۃ الطالبین)
سیدنا امیر معاویہؓ احادیث کی روشنی میں
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اﷲ معاویہ کو ھادی اور مہدی بنا اور ان
کے ذریعہ سے ہدایت دے ۔(ترمذی جلد ۲ ص ۲۲۴)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ معاویہ کو کتاب اور حساب سکھا اور
دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (مسند احمد بن حنبلؒ)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :اے اﷲ معاویہ کا سینہ علم سے بھر دے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا سب سے بڑا برد بار معاویہ بن
سفیان ہے ۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ اس حالت میں اﷲ کے دربار میں پیش
ہوگا کہ اس کے چہرے پر نور ایمان کی چادر ہوگی ۔
(خلافت وحکومت ص ۲۰۶)
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو
وضو کرارہا تھا ،وضو سے جو پانی بچا وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے
ہاتھوں میں لے کر میرے منہ پر چھینٹے مارے اور چھینٹے مارتے ہوئے حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ایک لفظ فرمایا اور حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ وہ لفظ
مجھے زندگی بھر نہیں بھولا اور وہ لفظ یہ تھا :یامعاویہ ان ولیت الامر فاتق
اﷲ ۔اے معاویہ جب تجھے حکومت ملے تو اﷲ سے ڈرتے رہنا۔
حضرت معاویہ ؓ اتنے بڑے عاشق رسول تھے کہ ان کو کسی نے کہا کہ کعب ابن ظہیر
ایک صحابیؓ ہے ،اس کے پاس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چادر ہے۔سیدنا امیر
معاویہ ؓ نے اس کو لینے کے لئے سواری دو سو میل تک بھیجی ،جب وہ آیا تو
امیر معاویہؓ نے فرمایا :کہ یہ چادر مجھے دے دو اور مجھ سے ساری حکومت لے
لو اور اس نے حضرت معاویہؓ کو یہ چادر مفت دے دی تو حضرت معاویہؓ فرماتے
تھے کہ یہ چادر میرے کفن میں رکھ دینا ،یہ میرے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی
چادر ہے ۔سیدنا امیر معاویہ ؓ مدینہ جاتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓکے سامنے
دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے اور رو کر کہتے اماں ! مجھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کے کپڑے دکھاؤ ،جب اماں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑے لاتیں تو سیدنا امیر
معاویہؓ ان کپڑوں کو آنکھوں سے لگاتے اور ان کپڑوں کو پانی میں بھگو کر
اپنے جسم پر مل لیتے اور کہتے یہ میری نجات کے لئے کافی ہے ۔(خطبات فاروقی)
حضرت معاویہ ؓایک دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر آئے حضرت امیر معاویہ ؓ
کی چھوٹی بہن سید ہ ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے
سر میں تیل لگارہی ہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم نے پوچھا کیا کررہی ہو ،حضرت ام حبیبہ ؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ یہ
میرا بڑا بھائی ہے ،بڑا بہادر آدمی ہے ،مجھے اس سے بڑی محبت ہے اور بڑے
عرصے بعد آیا ہے ،تھکا ہوا ہے میں
اس کے سر میں تیل لگاتی ہوں ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تو ہی
معاویہ سے محبت نہیں کرتی بلکہ اﷲ اور اس کا رسول بھی معاویہ سے محبت کرتا
ہے ۔(خطبات فاروقی حصہ اول ص ۳۸۸)
الہدایہ والنہایہ میں ہے کہ جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے حضرت امیر
معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خون عثمان کے بارے باہمی جنگ ہورہی تھی اس وقت اس
موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے رومی بادشاہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ
کو یہ پیشکش کی کہ اس جنگ کے اندر میں آپ کا یہ تعاون کرسکتا ہوں کہ اپنی
عظیم فوج آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں ،تاکہ آپ علی المرتضیٰ کو شکست دے سکیں
۔اس موقع پر آپ رضی اﷲ عنہ نے رومی بادشاہ کو درج ذیل خط لکھا: اے لعنتی
انسان ! اگر تو اپنی عادتوں سے باز نہ آیا اور اپنے ملک واپس نہ گیا تو میں
تیرے خلاف اپنے چچا زاد بھائی ( علی المرتضیٰؓ) سے صلح کرلوں گا اور تجھے
یہاں سے نکال دوں گا اور زمین کو وسعت کے باوجود تیرے اوپر تنگ کردوں گا ۔
سیدنا امیر معاویہ ؓ اکابر اُمت کی نظر میں
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت علی
ؓ کے ساتھ اگر جنت میں ابتداء کی تو صلح میں بھی ابتداء کی ۔(صواعق محرقہ ص
۱۰۵)
حضرت امام مالک رحمہ اﷲ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کو برا کہنا اتنابڑا
جرم ہے ،جتنابڑا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو برا کہنا ہے
۔(ایضاص ۱۰۲)
حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ ؓ اسلامی حکومت کے بہت
بڑے سردار ہیں ۔(ایضا)
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ ؓ کے
کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں ۔(ایضا)
حضرت امام اعمش رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ ؓ کا زمانہ دیکھ لیتے
تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے ،لوگوں نے پوچھا کیا
آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں ․․․! خدا کی قسم ان کے
عدل کی بات کہہ رہا ہوں ۔(المتقی ص ۲۳۳)
امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے حالات زندگی کو خلفائے
اربعہ کے ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے،کیونکہ آپ ؓ بھی خلیفہ راشد ہیں
۔(تاریخ ابن خلدون )
حضرت ملا علی قاری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ ؓ مسلمانوں کے
امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور
بے بنیاد ہیں ۔( موضوعات کبیر)
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے
والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے ۔(البدایہ ج ۸ ص ۱۲۶)
سیدنا امیر معاویہ ؓ کی تاریخ ساز اصلاحات
سیدنا امیر معاویہ ؓ نے خلفائے راشدین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے
مندرجہ ذیل نئے امورواصلاحات کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا ۔(!) حضرت
امیر معاویہ ؓ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا ۔(۲) سب سے
پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی
زبردست رومن بحریہ کا شکست دی ۔(۳) آبپاشی اور آبدوشی کے لیے پہلی نہر
کھدوائی ۔(۴) ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔(۵ ) احکام پر مہر لگانے
اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا ۔(۶)آپ سے پہلے
خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے ،آپ نے پرانے غلافوں
کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا ۔(۷) پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لایا
اور انتظامیہ کو بلند تر بنایا نیز انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک
دیا ۔(۸) بیت المال سے تجارتی قرجے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے
تجارت وصنعت کو فروغ دیا ۔(۹) سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت
کرکے اور چند نئے قلعے تعمیر کراکر اس میں مستقل فوجیں متعین فرمائیں ۔(۱۰)
بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لیے خصوصی پولیس ( سی آئی ائے سٹاف) کی بنیاد
ڈالی ۔
کاتب وحی ،جلیل القدر صحابی رسول ،فاتح شام وقبرص اور ۱۹ سال تک ۶۴ لاکھ
مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا امیر معاویہ ؓ نے ۷۸سال کی عمر میں
۲۲رجب المرجب ۶۰ ہجری کو دمشق میں وفات پائی ۔حضرت ضحاک بن قیس ؓ نے آپ کی
نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں مدفون ہوئے ۔اﷲ تعالیٰ کی ان
پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں ۔آمین
|