منتقلی جنس کی ہو یا ماحول کی آغاز میں بہت مشکل ہوتی ہے
خود انسان اور معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا مگر وقت کے ساتھ ساتھ خود کو
ماحول کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہیٹرانسجینڈروہ لوگ جو قدرتی طور پر نہ مرد
ہوتے ہیں نہ عورت اور انکا پاکستان جیسے معاشرے میں زندہ اور قائم رہنا
ایسا ہی ہے جیسے ایک تالاب میں مگرمچھ اور مچھلیاں کسی شخص یا عورت کے بارے
میں واقعات اور اسکی کہانی جانے بغیر فیصلہ یا فتویٰ لگا دینا کہ یہ مجرم
ہے ہمارے معاشرے کی پرانی روایت ہے وہ اپنی زندگی کیسے بسر کرتے ہیں کیسے
وہ اپنا گزر بسر کرتے ہیں اور کیسے اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرتے ہیں ان
سوالات کو جانے بغیر ان کے متعلق بری اور گھٹیا سوچ اور رائے کو قائم کر
لینا ہماری اخلاقی اور ذہنی پستی کا نتیجہ ہے تاریخ کے پنوں پر اگر نظر
دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ سرا کوئی نئی یا آسمانی مخلوق نہیں
بلکہ مغلیہ اور ترک سلطنت کے ادوار میں یہ طبقہ شاہی خاندانوں کے ساتھ
اٹھتا بیٹھتا چلتا پھرتا شہزادوں شہزادیوں کی تعلیم اور تربیت کے کام سر
انجام دیتاتھا اور ان کا ایک الگ مقام تھایہ عورتوں کے حرم کے رکھوالے بھی
تھے لکھاری شاعر مصور اور فوج کے جرنیل بھی پھر 1857 کے بعد جب انگریز دور
حکومت آیا تو ان پر پابندی لگا دی گئی بہت سوں کو قتل کروا دیا گیا اور کئی
زندگی بچانے کے لئے چھپ گئے اور اپنا بھیس بدل لیابس یہی وہ لمحہ تھا جو ان
کو تذلیل اور طعنوں کی دلدل میں دھکیل گیا اور 2023 میں بھی یہ کمیونٹی یا
طبقہ اپنے سروائیول کے لیے یا تو سیکس ورکر بن گیا یا ناچ گانے والا آج بھی
اگر کسی خاندان میں اگر ایسا بچہ پیدا ہو جائے تو یا تو اسے مار دیتے ہیں
یا خاموشی سے خواجہ سراؤں کے علاقے میں چھوڑ آتے ہیں جہاں وہ یا تو ناچنے
والا بن جاتا ہے یا بھکاری کیونکہ ان کے پاس نہ تو تعلیم ہوتی ہینہ کوئی
ہنر اوراب سے بڑھ کر کوئی شناخت بھی نہیں ہوتی پاکستان میں 2009 سے 2022 تک
بہت سے قوانین ان کے حق میں بنائے گئے اس نہیں وراثتی حقوق شادی اور اب
پارلیمنٹ میں انکے لیے قراردادپاسہوچکی ہے جسکی وجہ سے یہ لوگ اپنا شناختی
کارڈ پاسپورٹ یا نادرا سے خود کو رجسٹر کروا سکتے ہیں ان کیئے کالجوں
یونیورسٹیوں میڈیاسرکاری نوکریوں کا کوٹہ مخصوص کر دیا گیا ہے جو خوش آئند
عمل ہے اگر خدائے ذوالجلال نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے تو اس کااسمیں کیا
قصور ہے مغربی معاشرے اس بات کو پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں اور ان کے یہاں
انکے وہی حقوق ہیں جو ایک عام عورت یامردکو حاصل ہیں مگر ہمارے خطے خصوصاََ
پاکستان بھارت بنگلہ دیش میں یہ لوگ آج بھی حقارت اور تذلیل بھری نگاہوں سے
دیکھے جاتے ہیں13 اکتوبر 2021 گوجرانولہ کے ایک نواحی علاقے میں باپ نے
اپنی سولہ سال کی بیٹی کو خواجہ سرا ثابت ہونے پر چار گولیاں مار قتل کر
اور خود کو فخریہ انداز میں پولیس کے حوالے کر دی ایک اور خبر جو کہ 17
نومبر 2022 کو شائع ہوئی جس میں ایک عورت کو اس کے بھائی نے خنجر مار کر
قتل کردیا کیونکہ وہ رشتہ داروں اور محلے والوں کے طعنے برداشت نہیں کرسکتا
تھا اور تنگ آکر اسنے یہ انتہائی قدم اٹھا لیا جھاں پر بہت تاریکی اور گھٹن
ہو وہاں تھوڑی سی امید کی کرن یا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آ جائے تو وہ جگہ
رہنے کے قابل ہو جاتی ہے میری ملاقات علینا سے ہوئی جو آج ایک کامیاب مڈل
اور اداکارہ ہے بقول اس کے جب وہ چھوٹی سی بچی تھی تو اس کے والدین نے اسے
نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور جب وہ بڑی ہوئی تو اسے گھر سے نکل جانے کو
کہا اور وہ دارالامان میں آ گئی پڑھی لکھی اور خوبصورت ہونے کی بنا پر جلد
ہی معاشرے میں بجائے خوف اور ڈر کے سائے میں جینے سے بہتر تھا کہ میں باہر
نکلوں اور اپنی ذات کو اچھے طریقے سے کیش کرواؤں نا کہ ناچ یا گا کر اور آج
میں رائٹر ایکٹریس سوشل ورکر اور این جی او کی سرپرست بھی ہوں جھاں میں
بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھا رہی ہوں اور اس معاشرے میں اپنا مقام
بنا رہی ہوں بیشک اگر ہمت اور سوچ مثبت ہو تو انسان سب کچھ کر دکھاتا ہے آج
میرے ماں باپ اور خاندان نے مجھے تسلیم کر لیا ہے آخر میں بس اتنا کہوں گی
کہ کسی بھی جاندار کو آپ الگ کر دیں گے تو وہ اکیلا اور تنہا گھٹ گھٹ کر مر
جائے گا وہ انسان کو یا جانور توجہ پیار میانہ روی عدم برداشت اور ہنس کر
بات کرنا ویسے بھی ہمارے معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے مگر امید کی کھڑکی
ہمیشہ کھلی رکھنی چاہیئے کیونکہ مایوسی کفر ہے اور ایک دن آئے گا جب یہی
طبقہ ہمارے ساتھ شامہ بشانہ شامل ہو گا اور اپنی الگ پہچان بنانے اور اور
مقام پانے میں کامیاب ہو گا۔
|