مہنگائی اور ہم

اج دل سے ایک آواز آئی۔آواز آئی کہ ہم کتنے بزدل ہیں۔ہم کبھی اپنے یا کسی کے حق کے کے لیے نہیں بولتے۔ہماری قوم بہت ناکامیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں کہ جس میں غریبوں سے ٹیکس لے کر جرنیلوں،ججوں، سیاست دانوں کو بجلی،پٹرول اور باقی سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ان غریبوں کے بارے میں بولنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ہمارے ملک میں غریبوں کو انصاف نہیں ملتا۔غریب اپنی روزی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔غریب کا اس معاشرے میں گزارا مشکل ہو چکا ہے کیونکہ اب تو غریب مہنگائی کی وجہ سے وہ دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔کتنے معصوم لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔اس ملک میں سرمایہ درانہ نظام عروج پر ہے۔اس مہنگائی کی وجہ سے کتنے لوگ دو وقت کی روٹی اور دیگر روزمرہ کی ضروریات سے محروم ہیں۔حکمرانوں کو اگر ٹیکس لینا ہی ہے تو ان لوگوں سے لیں جو اچھے خاصے امیر ہیں۔جو بڑی بڑی کاروں والے ہیں۔اس ملک میں غریب جو اپنی ضروریات نہیں پوری کر سکتا بے چارا فاقے کرکے گزارہ کرتا ہے۔کتنے ہی سفید پوش لوگ ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے فاقے کرتے ہیں۔غریب بے چارا اس ملک میں ہر چیز سے محروم رہتا ہے۔مہنگائی میں امیر طبقہ تو ذخیرہ اندوزی کر لیتا ہے جبکہ اس مہنگائی میں غریب بالکل ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پرسکون زندگی گزارنے کے لئے ڈاکٹر،SHO،وکیل،جج،جرنیل،وزیر اور تگڑا بدمعاش یہ سات دوست ہونے سے ضروری ہیں۔اس سے بڑی کیا دلیل دوں کہ یہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ایک وقت تھا کہ جب پورے ایشیا پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔پھر آہستہ آہستہ قوم زوال کا شکار ہوتی گئی۔ہمارا ملک اسلام کے نام بنا تھا۔اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا۔یہ ملک ہمیں بہت محنت اور مسلسل کوششوں سے ملا۔مگر اب مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ملک میں رشوت خوری،ناانصافی،سود اور بہت سے ایسے برے کام ہو رہے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔یہ وہ ملک نہیں ہے کہ جس کا علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

افسوس کہ اس ملک میں علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے مفکرین نہیں رہے۔ان جیسے عظیم لوگ بہت کم ہیں جو اپنی ذات سے ہٹ کر ملک و قوم کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں ،کچھ لکھتے ہیں ،کچھ کرتے ہیں۔افسوس! کہ اب اس ملک میں عظیم سیاست دان نہیں رہے۔ہم تو اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو عرب کے صحراؤں سے اٹھی اور دنیا کو حکمرانی کے آداب سکھائے۔
تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں‌ گیر و جہاں‌دار و جہاں‌بان و جہاں‌آرا


ہمارا ملک صرف اور صرف ہماری لاپرواہی کی وجہ سے زوال کا شکار ہو رہا ہے۔اس ملک کو برباد کرنے میں قوم کے ساتھ سیاستدانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اس قوم میں جب کس چیز کی قلت ہوتی ہے تو امیر طبقہ ذخیرہ اندوزی کر لیتا ہے جب کہ غریب بے چارے اپنی ضرورت کی اشیاء سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ان تمام باتوں سے میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں محنت کرنی ہے،اپنی زندگی اسلام کے اصولوں پر گزارتے ہوئے مسلسل محنت کرنی ہے۔ہمیں ملک و قوم کیلئے مسلسل محنت کرنی ہے اور پھر سے ایک بار آسمان کی بلندیوں کو چھونا ہے۔یہ صرف فلسفیانہ باتیں نہیں ہیں بلکہ ہمیں مل کر اس پر کام کرنا ہے اور آسمان پر پرواز کرنا اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرنا ہے۔


 

Muqaddas ghafoor
About the Author: Muqaddas ghafoor Read More Articles by Muqaddas ghafoor: 2 Articles with 576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.