یوتھ ڈیپارٹمنٹ، تحصیلدار، لب جب اور ٹیکس کٹوتی کے نام پر دھندا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
محترمی آپ تو سپورٹس اور اس میں ہونیوالی کرپشن کے حوالے سے بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں کبھی آپ نے اس ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ یوتھ ڈائریکٹریٹ کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا کبھی اس پر بھی لکھ لیا کریں.کہ کیسے اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے اعلی افسران نے اسے ڈیپارٹمنٹ کے فنڈز کو " ابا کا مال سمجھ" کر لوٹا.جس کی چند مثالیں اور طریقے میں آپ کو بھیج رہا ہوں کہ تبدیلی والی سرکار کے دور میں کیسے ایک سیکرٹری لیول کے اعلی افسر کی اہلیہ کے غیر سرکاری ادارے کو نوازا جاتا رہا، کیسے ایک مخصوص فرم کو ٹھیکے ملتے رہے ہیں اور اس میں کس کے کہنے پر کیا کیا کچھ ہوتا رہا. محترمی! یوتھ ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے افسران جو حقیقت میں تحصیلدار سطح کے افسر ہیں اور انہوں نے اپنے تحصیلداری کے ذریعے اس عہدے تک رسائی اختیار کرلی ان کے ہاتھ اس ڈیپارٹمنٹ میں اتنے کھلے ہیں کہ اگر کوئی بھی ریکارڈ چیک کرنا چاہے تو یہ چیک کریں کہ جو ڈائریکٹر اس وقت یوتھ ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے ہیں ان کے پاس کس ماڈل کی گاڑی ہیں اور اس کی مارکیٹ میں قیمت کتنی ہے اور کیا وہ اس کے اہل ہیں یا نہیں، صرف یہی گاڑی ان کے زیر استعمال نہیں بلکہ کئی کئی گاڑیاں انہوں نے اپنے رہائش گاہوں میں کھڑی کی ہیں ریکارڈ چیک کرنے پر کم از کم پتہ تو چلے گا کہ کتنی گاڑیاں ڈیپارٹمنٹ کی اس وقت افسران کے گھروں کے زیر استعمال ہیں اور اس میں پٹرول کتنا ڈالا جاتا ہے اور اسے استعمال کرنے والے کون ہیں یہی نہیں بلکہ یہ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ تحصیلداری سے ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچنے والوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑسنگھی ہے کہ ڈیپارٹمنٹ سے جانے کے باوجود بھی صاحب لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں.جس کا پٹرول اس غریب عوام کے چمڑی ادھیڑ کر نکالی جاتی ہیں. محترم صحافی صاحب! آپ کو میں یوتھ ڈیپارٹمنٹ کے طریقہ واردات سے بھی آگاہ کرنا چاہوں گا کارکردگی پر بات تو پھر بات ہوگی، ضم اضلاع میں بھرتی ہونیوالے بیشتر یوتھ افسران سفارشی ہیں انہیں پروپوزل تک لکھنا نہیں آتا نہ ہی انہیں یہ پتہ ہے کہ نئے ضم اضلاع کے نوجوانوں کو کیسے مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جائے اور کونسے پروگرام کروائے جائیں.بس جس طرح ملا کی دوڑ مسجدتک ہوتی ہیں ان ڈی وائی اوز کی دوڑ بھی ورکشاپ یا پھر تفریحی ٹورز تک ہی محدود ہے، کسی نے قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے سکلز کو بہتر کرنے انہیں مواقع دینے کیلئے کوئی پروگرام ترتیب ہی نہیں دیا.بس چند افراد کو مخصوص لوگ اٹھا کر نتھیاگلی اور لاہور لے کر جاتے ہیں اور پھر اللہ اللہ خیر صلا.. ریکارڈ میں قبائلی یعنی ضم اضلاع کے بہت سارے پروگرام کئے گئے لیکن حقیقت میں خیر خیریت ہی ہے.اگر یقین نہیں آتا تو پھر اس ڈیپارٹمنٹ کے فنڈزچیک کئے جائیں کہ کس طرح انہوں نے ڈیرہ جات میں میلوں کے نام پرکم و بیش کروڑوں روپے ڈی سی کو ممبران قومی اسمبلی کے کہنے پر جاری کئے مگر ریکارڈ ان کے پاس ابھی تک کوئی نہیں.کیا یہ غریب عوام کے ٹیکسوں سے کھیلنے کے مترادف نہیں.. جناب صحافی جو اپنے آپ کو سچ کے علمبردارکہتے اور لکھتے ہیں کیا کبھی آپ نے یوتھ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ کے پروگراموں کی تاریخیں چیک کی ہیں ریکارڈ میں کتنے دن دکھائی دیتے ہیں اور حقیقت میں کتنے دن ہوتے ہیں سب سے مزے کی بات یہی ہے کہ جو لوگ نوجوانوں کی بہتری اور سکلز سمیت ان کی پروشن کیلئے آئیڈیا لیکر آتے ہیں انہیں کہا جاتا ہے کہ فنڈز تو ہمارے پا س نہیں البتہ ہم مینجمنٹ سروسز میں آپ کو رقم دینگے اور باقی آپ مینج کریں، جب سب کام فائنل ہوجاتے ہیں تو پھر یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ آپ کو کیٹرنگ کا سامان چاہئیے اس لئے ایک مخصوص جگہ کا نام لیکر بھیجا جاتا ہے اور پھر رقم کی ادائیگی آئیڈیا دینے والے کے بجائے کیٹرنگ کرنے والوں کو دی جاتی ہیں اور یہ سب کس لئے کیا جاتا ہے اس لئے کہ یوتھ ڈیپارٹمنٹ کے افسران ان کیٹرنگ کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں.اور اگر کسی وزیر کی طرف سے تبدیلی والی سرکار کے دور میں فون آتا توان لوگوں کیلئے بغیر کسی آئیڈیا کے فنڈز بھی بہت تھے اور ریکارڈ جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی. سب سے حیران کرنے والا طریقہ واردات اس یوتھ ڈیپارٹمنٹ کا ہے اب تک اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے بیشتر افسران تحصیلدار سے ہو کر آئے ہیں اس لئے وہ " لب جب" کرنے کے ماہر ہیں اسی لب جب میں انہوں نے بیورو کریسی میں تعینات ایک اعلی افسر کی اہلیہ جن کی غیر سرکاری تنظیم بہت مشہور ہیں کے پاس پروپوزل لانے والوں کو بھیجا جاتا اور یہ کہاجاتا کہ ہم سارا فنڈز ان کو دینگے آپ صرف رسیدیں اور ڈاکومنٹس اسی تنظیم کے پاس جمع کروائیں کام آپ کرائیں لیکن ریکارڈ میں متعلقہ تنظیم کے کھاتے میں ہوگا اور آپ کو ادائیگی کی جائیگی. اگر اب اگر کوئی پراجیکٹ کرنے والے ہوشیار ہوتا تو اسے رقم کی ادائیگی ہو جاتی اور اگر کہیں پر رسید مس ہوتی تو پھر اتنی ہی ادائیگی پراجیکٹ کرنے والوں کو دی جاتی حالانکہ رقم پوری کی پوری اعلی افسر کی اہلیہ کی تنظیم کو دی جاتی تھی اگر یقین نہیں آتا تو اس یوتھ ڈیپارٹمنٹ کے بیشتر پراجیکٹ چیک کئے جائیں تو پتہ لگ جائیے گا کہ کس کو تبدیلی والی سرکار کے دور میں کس طریقے سے نوازا گیا. جناب صحافی صاحب! چلیں! آپ جس سپورٹس کی پروموشن کی بات کرتے ہیں اسی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے متعدد ٹورنامنٹ اسی یوتھ ڈیپارٹمنٹ نے سپانسر کرائے ہیں لیکن انہیں حقیقت میں ادائیگی کتنی ہوئی اور کاغذات میں کتنے دکھائے گئے، اگر یقین نہیں آتا تو پھر جنہوں نے تبدیلی والی سرکار کے دور میں ٹورنامنٹ، چیمپئن شپ اور مقابلے منعقد کروائے تھے ان آرگنائزر سے پتہ کریں کہ کس طرح ان سے لاکھوں روپے ٹیکسوں کے نام پر روکے گئے اور آرگنائزر بعد میں روتے رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں.اس سارے پروگرام میں اسی یوتھ ڈیپارٹمنٹ کے اعلی افسران کا ایک مثلث ملوث ہے جن کے اثاثے اور ان کے پاس سرکاری گاڑیوں سے باآسانی پتہ چلایا جاسکتا ہے انہوں نے کس طرح مار دھاڑ کرکے یوتھ ڈیپارٹمنٹ سے کمائی کی. ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے بات چلی ہیں تو محترم صحافی صاحب! سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اکاؤنٹس سے پتہ کرائیں کہ انہوں نے کتنے کنٹریکٹر کے ٹیکس جمع کروائے ہیں. کاغذات میں اور اصل حقیقت میں ٹیکس کہاں پر گیا، یہی صورتحال یوتھ ڈیپارٹمنٹ کی بھی ہیں.کیا اس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل جو ان دونوں ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں انہیں کچھ پتہ نہیں، یا پھر وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں.محترم صحافی صاحب! اگر آپ میرا یہ خط شائع کردیں تو انشاء اللہ آپ کو مزید بھی انکشاف کیلئے لکھتا رہونگا.. شکریہ العارض..
غمگسار #kikxnow #digitalcreator #sports #youth #department #kpyouth #funds #kpfunds #peshawar #kpmojo #mojo #mojoyouth #corruption
|