پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک غریب شخص رہتا
تھا اس شخص کے پاس مال مویشی بھی تھا اتفاقاً ایسا ہوتا ہے کہ اس کے گھر پر
ایک چوہا اجاتا ہیں چوہا پہلے دن آکر کچن کا کھانا کھاکر اور ضائع کرکے چلا
جاتا ہے جب چوہے کی خبر مالک کی بیوی کو پتا چل جاتی ہیں تو وہ دوسرے دن
بازار سے چوہا پکڑنے والا پنچرہ خرید کر لاتی ہیں تاکہ اس چوہے کو آسانی سے
پکڑ کر اسے مار سکے جب یہ خبر اس چوہے کو پہنچ جاتی ہے تو وہ اس گھر میں سب
سے پہلے کبوتر کے پاس جاتا ہے اور گھبراتے ہوئے کہتا ہے اے کبوتر آپ کو
معلوم ہے کہ مالک نے مجھے پکڑنے کے لیے پنجرہ رکھا ہے تاکہ میں اسکے اندر
آکر پھس کر مر جاؤں اسلئے میں آپکے پاس آیا ہوں تاکہ آپ میری مدد کرے کبوتر
چوہے کی بات سن کر اسے دتکارتا ہیں اور کہتا ہے جا میرا اس سے کیا لینا
دینا آپ جانو آپکا کام جانے یہ سن کر چوہا پھر مرغے کے پاس جاتا ہے اور وہی
قصہ اسے سناتا ہے اسکے بعد مرغا بھی بھگا دیتا ہے آخر میں چوہا گھر کے سب
سے بڑے جانور یعنی بکرے کے پاس جاتا ہے اور اپنا غم سناتا ہے کہ آپ میری
مدد کرے تاکہ میری زندگی بچ جائے لیکن بکرا بھی اسے ناامید کردیتا ہیں
اتفاقاً ایسا ہوتا ہے کہ رات کو اس پنچرے کے اندر سانپ پھنس جاتا ہے اگلی
صبح مالک کی بیوی یہ سمجھ لیتی ہے کہ شائد اس میں چوہا پھس گیا ہو یو وہ
خوشی خوشی آکر جب پنچرہ کھولتا ہے تو چوہے کی جگہ سانپ ہوتا ہے اور سانپ
اسے ڈس لیتا ہے سانپ کے ڈس لینے بعد وہ عورت بیمار ہو جاتی ہے اس وقت کے
حکیم اسے گرم سوپ کھانے کا کہتا ہے مالک کو کوئی اور چیز نہیں ملی تو سب سے
پہلے وہ کبوتر کو حلال کرتا ہے اور اسکا گرم سوپ بناکر اپنی بیوی کو پلا
دیتا ہے ایک ہفتہ گزرنے کے بعد مہمان وغیرہ گھر پر اسکی عیادت کے لیے آتے
ہیں اور پھر وہ مرغے کو حلال کرتا ہے اور مہمانوں کو کھلاتا ہے کچھ عرصہ
گزرنے کے بعد وہ عورت انتقال کرجاتی ہیں اب جب گھر پر کوئی اور چیز نہیں
ملتی تو اس نے آخر میں بکرے کو ذبح کیا اور اپنی بیوی کا خیرات دیا اور یو
وہ چوہا آخر میں بچ گیا اب آتے ہیں کہ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق لینا
چاہیے!!
اس کہانی سے ہم مالک اور چوہے کو حکمران اور غریب عوام سمجھ لیتے ہیں اور
باقی کبوتر،مرغا،اور بکرے کو سماج میں رہنے والے باثر اور پیسے والے لوگوں
سے مشابہت کرتے ہیں ہمارے ملک پاکستان کے سماج کا حال بھی پچھلے 75سالوں سے
یہں ہیں اس نظام میں رہنے والے بچارے غریب ،مسکین،اور پسہ ہوا طبقہ جو ظلم
کی چکی میں پس رہے ہیں انکا کوئی پوچھنے والا نہیں آئے دن بڑھتی ہوئی
مہنگائی نے غریب عوام کے منہ سے روٹی بھی چھین لی غریب عوام کو روزگار نا
ملنے پر وہ خود کو اور اپنے بچوں کو مارنے پر مجبور ہیں اگر آج ملک پاکستان
میں رہنے والے ہمارے پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان اپنے آپ سے نکل کر معاشرے
اور سماج میں رہنے والے ہر اس غریب ،مسکین، کے خلاف اور ملک میں رائج نظام
ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرینگے تو ہمارا حشر بھی اسی کبوتر ،مرغا،اور
بکرے کی طرح ہوگا کیونکہ جب ملک میں نظام عدل و انصاف کے بجائے ظلم و جبر
کا ہوتا ہے تو اس میں غریب ،امیر بچے،بوڑھے، مرد ،عورت غرض کہ سماج میں
رہنے والے ہر فرد پر اس نظام کا اثر پڑتا ہے آج ضرورت اس چیز کی ہیں ہم
نوجوان آلہ کاری سے بچھے اور سیاسی،اور مذہبی جماعتوں کے لوگوں کے شخصیات
کا فین نا بنے اپنے اندر دین اسلام کا سیاسی،معاشی، اور سماجی نظام کا شعور
و فہم پیدا کرے جب ہمارے نوجوانوں کے اندر سیاسی شعور پیدا ہوگا تو وہ اپنے
قوم اور ملک کو ترقی کی طرف لے جائیگا اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اللہ
تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان پر رحم فرمائے اور اجکے اس ظلم اور فرعونی سیاست
اور نظام سے ہماری حفاظت فرمائے آمین!!!
|