پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے مگر خوشی کی
بات یہ ہے کہ حکومتی ادارے ملک میں جدید ترین سہولیات کی فراہمی کے لیے
منصوبوں کو معاونت فراہم کرتے رہے۔دنیا میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اہمیت کے
مدنظر سالڈ ویسٹ کمپنیاں قائم کی گئی تو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پہلی
سالڈ ویسٹ کمپنی لاہور میں قائم کی گئی۔جو دیگر شہروں میں قائم ہونے والی
باقی کمپنیوں کے لیے رول ماڈل ہے۔ابتدا میں شہر کی صفائی اور کوڑا اُٹھا کر
ٹھکانے لگانے کے نظام کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا۔لاہور شہر کی بڑھتی
آبادی اور کوڑے کی پیداوار میں اضافے کے باعث لینڈ فل سائٹ پر بنتے کوڑے کے
پہاڑوں سے زیر زمین نقصان سامنے آنے لگے تو سائنسی بنیادوں پر قائم لینڈ فل
سائٹ بھی اپنی افادیت کھونے لگی۔بڑھتی ہوئی کوڑے کی مقدار پوری دنیا کا
مسئلہ ہے جس کا حل لینڈ فل سائٹ نہیں ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں لینڈ فل
سائٹ کے تصور کو ختم کر کے ویسٹ سیگریگیشن اور ری سائیکل کے نظریات کو فروغ
دے کر زیرو ویسٹ تصور پر کام کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے زیادہ تر مقامات پر ''ویسٹ مینجمنٹ'' یعنی کوڑے کو اُٹھانا اور
ٹھکانے لگانا ماروائے حقیقت نہیں۔ اپناغیر ضروری پُرانا سامان گاؤں کے باہر
گلی کے پاس پھینک دیا جانا،خشک پتوں یا فصلوں کی باقیات کو جلانا،کچرے کے
ڈھیر کو زمین کی ایک پتلی تہہ سے ڈھانپ دینا اور خوفناک بو کو نظر انداز
کرنا۔ یہ طریقہ صدیوں سے چل رہا ہے جس پر دنیا نے لمبا عرصہ گزارہ کیا۔
ترقی یافتہ ممالک اورخود کفیل زرعی معاشرے وسائل کی کمی نہ ہونے کے سبب جلد
ویسٹ کے ڈھیروں کو کنٹرول میں لا کر ان کے مضر اثرات سے محفوظ ہو گئے۔فطری
ذرائع 100% بایوڈیگریڈیبل کی خصوصیات سے مالا مال تھے اس لیے اُن کا
استعمال کبھی نقصان دہ نہیں ہوا، مٹی کے برتن،لکڑے سے بنی اشیاء اور دیگر
تمام قدرتی ذرائع استعمال ہو کر اپنا وجود کھو دیتے تھے۔انہیں ٹھکانے لگانے
کے لیے کسی سائنسی عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس طرز زندگی اور قدرتی
وسائل کے استعمال کی بدولت ویسٹ کو باآسانی ٹھکانے لگایا جا سکتا تھا۔
مگر بڑھتی ہوئی آبادی سہولت اور جدت پسندی کے سبب صرف قدرتی وسائل تک محدود
رہنا ممکن نہیں تھا۔کثیر وسائل والے ممالک نے لینڈ فل سائٹ سے ویسٹ کو
باآسانی ٹھکانے لگا لیا۔ مسائل اس وقت شروع ہوئے جب 20 ویں صدی کی ایجادات
کی رسائی عام فرد کی پہنچ میں آ گئی۔ پلاسٹک کی پیکیجنگ، تیل کے برتن،
ٹائر، بیٹریاں، الیکٹرانکس اشیاء استعمال ہو کر قدرتی طور پر ختم نہیں کی
جا سکتی ان کا وجود کئی سو سالوں تک باقی رہتا ہے۔ مصنوعی مصنوعات کی
پیداوار کی شرح جس قدر تیز تھی،ویسٹ مینجمنٹ اسی قدر سست روی کا شکار
تھی۔بیسوی صدی کے وسط تک ویسٹ ٹھکانے لگانے کا بہترین حل لینڈ فل سائٹ ہی
تھا جبکہ لینڈ فلز بدبودار اور ماحول کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہیں۔ ان
میں ٹھوس، زرعی، صنعتی، تیار شدہ اور تعمیرات سمیت بہت سے مختلف قسم کے
فضلے ہوتے ہیں۔ گھروں، اسکولوں، ریستورانوں، بازاروں، عوامی مقامات، دفاتر،
کھیتوں، جانوروں کا فضلہ، آئل ریفائنریز، پاور پلانٹس، دواسازی، تعمیراتی
کام کا ملبہ سمیت لینڈ فلز میں بے شمار ویسٹ موجود ہے۔ نئے آباد ہوتے شہر
اور بڑھتی آبادی کے سبب تیار شدہ مصنوعات کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے، 2019 تک،
بی بی سی کے مطابق، دنیا ہر سال دو بلین ٹن میونسپل ٹھوس فضلہ پیدا کرتی
ہے۔ یہ 800,000 سے زیادہ اولمپک سائز کے سوئمنگ پولز کو بھرنے کے لیے کافی
ہے! چین، تھائی لینڈ اور امریکہ جیسے ممالک کوڑے سے چھٹکارا پانے کے راستے
تلاش کررہے ہیں۔اگر ویسٹ کوکھلے جلایا جا تاہے تو اس سے نائٹروجن آکسائیڈز،
سلفر ڈائی آکسائیڈز، ذرات، سیسہ، مرکری، ڈائی آکسینز اور فرانز کے اخراج کے
ساتھ فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مادے صحت عامہ کے سنگین اثرات کا
سبب بھی بن سکتے ہیں۔اس تمام کوڑے اور اس سے پیدا ہونے والے مضر اثرات سے
بچنے کے لیے 3Rsتصور (ریڈیوس،ری یوز اورری سائیکل) کو حقیقی طور پر اپنانا
ویسٹ کو کم کرنے کی بہترین حکمتِ عملی ہے۔زیادہ چیزیں نہ خریدیں۔ جتنا کم
آپ خریدیں گے، اتنا ہی کم ویسٹ پیدا کریں گے۔ایسی اشیاء خریدیں جو ری
سائیکل شدہ مواد سے بنی ہوں۔کپڑے عطیہ کریں - ضرورت مند لوگوں، پناہ گاہوں،
یا کفایت شعاری کی دکانوں میں کپڑے عطیہ کریں،دوبارہ استعمال کرنے سے ویسٹ
کم ہوتا ہے اور پیسے کی بچت ہوتی ہے۔کھانے کے ضیاع کو کم کریں -اپنی پینٹری
کے لیے غیر استعمال شدہ اشیاء عطیہ کریں۔پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال کو
ختم کریں۔ریچارج ایبل بیٹریاں استعمال کریں۔کوڑے دان اور ری سائیکلنگ سے
متعلق اپنی مقامی پالیسیوں کے بارے میں مزید جانیں۔ سالڈ ویسٹ کو کم کرنے
کے فوائد کے بارے میں اپنی کمیونٹی میں دوسروں سے بات کریں۔لوگوں کے لیے
عملی مثال بنیں۔لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے آغاز سے ہی ویسٹ سیگریگشن کے
بارے میں آگاہی فراہم کی جا رہی ہے،لاہور کے پوش ایراز کے ساتھ ساتھ اندرون
اور متوسط علاقوں میں شہریوں کو تھری بنز کی افادیت کے بارے میں سرگرمیوں
کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔اب سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی علی عنان قمر کی
سربراہی میں شہر بھر میں باقاعدہ ویسٹ سیگریگیشن کا پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز
کر دیا گیا ہے۔ایل ڈبلیو ایم سی کے مرکزی دفتر اور اس کے گرد ونواح میں
تھری بنز کے استعمال کے بعد اب شہر میں بھی تھری بنز سسٹم متعارف کروا دیا
گیا ہے۔کوڑے کی درجہ بندی یعنی ویسٹ سیگریگشن کا مقصد شہر میں پیدا ہونے
والا کوڑے کی مناسب انداز میں تلفی اورقابلِ استعمال کچرے کو کارآمد بنانا
ہے۔لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ شہری اب اس
بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ صاف ماحول اور صحت مند زندگی کے لیے کوڑا کوڑے
دان میں ہی ڈالنا ہے۔اب شعور کی اگلی منزل یہ ہے کہ کوڑا ویسٹ بیگز میں بھر
کر کنٹینرز میں ڈال نہیں دینا بلکہ مختص کردہ رنگ کے مطابق کوڑا کوڑدان میں
ڈالا جائے گا۔لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے شہریوں کی آسانی کے لیے بین الا
قوامی سطح پر ہی
|