سانحہ بارکھان
(Saeed ullah Saeed, Karachi)
بارکھان بلوچستان کے ایک کنویں سے ماں اور اس کے دو بچوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنے کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے نا صرف مقامی سطح پر عوام نے شدید احتجاج کیا ہے بلکہ سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر بھی لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
متاثرہ خاندان کے سربراہ خان محمد مری کے مطابق جاں بحق افراد میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔ ان کے مطابق اب بھی ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی صوبائی وزیر مواصلات عبدالرحمن کیتھران کے نجی جیل میں قید ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بھی متاثرہ خاندان کے سربراہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے صوبائی وزیر کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے اسے اس حوالے سے پنڈی کی آشیر واد حاصل ہے۔ صوبائی وزیر نے البتہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے سیاسی کیرئیر کو ختم کرنے کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
یہاں پر کس کی بات میں کتنی صداقت ہے؟ اس کا فیصلہ اس وقت کرنا مشکل ہے لیکن جو بات تلخ حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، وہ یہ کہ ریاست کو معلوم تھا کہ ان کی رعایا میں ایک پورا خاندان گذشتہ چار برس سے یرغمال بنا ہوا ہے لیکن ریاست ان کے لیے کچھ بھی نا کرسکی۔
ایسا نہیں ہے کہ ریاست کے پاس یرغمال بنائے گئے افراد کو بازیاب کرانے کی طاقت نہیں ہے یا وہ مقتولین کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ریاست کرنا چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے لیکن بات ہوتی ہے ساری ترجیحات کی۔ ایک عام پاکستانی کی عزت و وقار، ان کی مال و جان کی تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ایسا ہوتا تو کافی پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے ایوان بالا کی توجہ اس جانب دلانے پر حکومت حرکت میں آجاتی اور اپنے ہونے کا ثبوت دیتی۔
پاکستان میں ماوارائے عدالت قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے اور نا ہی آخری۔ اس سے پہلے بھی ہم قاتلوں کو خون ناحق گرانے کے بعد فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ عدالتوں میں جاتے اور وہاں سے باعزت رہائی کا پروانہ ہاتھ میں لیے نکلتے دیکھ چکے ہیں اور بد قسمتی سے آئندہ بھی ایسے کربناک مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ ایسا اس لیے کہ یہ بات اب روز روشن کی طرح ہم سب پر عیاں ہے کہ اس ملک میں اشرافیہ کے لیے الگ جبکہ رعایا کے لیے الگ قانون موجود ہے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میں بے بسی کے اس انتہاء پہ آپہنچا ہوں، جہاں اس قسم کے سانحات کے بعد خوش ہوتا ہوں۔ مجھے زیادہ خوشی ہوتی اگر خان محمد کو ان کے خاندان کے تمام افراد کی لاشیں ایک ساتھ مل جاتی۔ یوں وہ روز جینے روز مرنے والی کیفیت سے نکل آتا۔ اور اپنے پیاروں کا غم منانے کے لیے صحراوں میں بھٹکنے کے لیے آزاد ہوجاتا۔ |