بچیوں کے مسائل

مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو زندگی کی ریس میں پیچھے بھی نہیں دیکھنا چاہتے مگر وسائل کی کمی کے سبب انہیں حد سے زیادہ محنت کرناپڑتی ہے ۔وہ اپنا آپ جلا کر خاک کر لیتے ہیں مگر بچے کی کامیابی کے لئے ہر قیمت دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ بچوں کی اگر صحیح تعلیم دی ہوئی ہو تو وہ بھی ماں باپ کی قربانیوں کی قدر کرتے اور اور تعلیم کے خاتمے پر ان کی مدد کرنے اور ان کا ہاتھ بٹانے میں کوئی دیر نہیں کرتے۔ خصوصاً بچیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ مگر ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ایف اے اور بی اے پاس بچیاں آج کے دور میں کم تعلیم یافتہ تصور ہوتی ہیں۔انہیں اچھی نوکری کی امید نہیں ہوتی۔پرائیویٹ سیکٹر میں چھوٹے چھوٹے دفتروں میں نوکری سماجی طور پر نہ تو اچھی سنجھی جاتی ہے اور نہ ہی اچھی ہوتی ہے۔ ماں باپ بھی ایسی نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر بچیاں مجبوری میں کر بھی لیں تو کچھ اچھا تاثر نہیں ہوتا۔سرکاری نوکری میں ان کم تعلیم یافتہ بچیوں کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔

ایسے حالات میں بچیاں بہتر سمجھتی ہیں کہ گھر میں ایک ٹیوشن سنٹرکھول لیں۔یہ کام ان کے لئے انتہائی آسان اور محفوظ ہوتا ہے۔دو چار بچوں کو تو وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر پڑھا لیتی ہیں۔ بچے زیادہ ہو جائیں تو گھر والے بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ گھر کا ایک کمرہ خالی کیا، اسے باقاعدہ کلاس روم بنا لیا۔معمولی فیس جو عام آدمی کی پہنچ میں ہوتی ہے اور دوسرا بچے کو پرائیویٹ سکول میں بہتر تعلیم دلوانے کا شوق غریب آدمی کے لئے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔انہی وجوہات کے سبب گھروں میں بنائے یہ سکول چل پڑتے ہیں۔گو یہ سکول تجارتی پیمانے پر نہیں ہوتے مگر ان بچیوں کو ان کا جیب خرچ مہیا کرنے، گھر چلانے میں قدرے مدد گار ہونے کے ساتھ ساتھ باہر کے حالات کے مقابلے میں بہت تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مگر جب ان سکولوں میں قدرے رونق ہوتی ہے تو سرکار حرکت میں آ جاتی ہے۔ سرکاری اہلکار یہ نہیں سمجھتے کہ وہ بچی پڑھانے کے نام پر بمشکل گھر کا بوجھ اٹھائے ہے ۔ اس میں اس کی آمدن شایداس کمرے کے کرایے کے برابر ہو۔اس کی کل آمدن اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی کہیں معمولی کام کرنے سے ہو سکتی ہے۔ مگر جو اہلکار آتے ہیں یا تو کچھ نہ کچھ وصول کرتے یا پھر کسی اچھی سفارش سے جان چھوڑتے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ یہ بچیاں حقیقت میں قوم پر احسان کر رہی ہیں۔خدمت خلق کر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک بچی بتا رہی تھی کہ وہ تین سو روپے فیس لیتی ہے اور بڑی محنت سے اس نے آٹھ ہزار کمائے ہیں اور سرکاری اہلکار غیر قانونی سکول چلانے کے جرم میں پانچ ہزار مانگتا ہے، کیسے دوں۔واقعی زیادتی ہے۔ محلے کے بزرگوں کو چاییے کہ ان بچیوں کو تحفظ دیں اور اس طرح کی ہر سرکاری اور پرائیویٹ ابتلا سے بچائیں۔سرکاری اہلکاروں کو بھی ایسے سکولوں کو نظر انداز کر دینا چائیے۔

ایک بچی کا والد بیمار تھا۔ بچی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ مجبوری نے اس پر وقت سے پہلے ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا۔باپ نے اپنے ایک پرانے دوست کو گھر کے حالات بتا کر کہا کہ وہ بچی کے لئے نوکری کا بندوبست کر دے کہ گھر کا چولہا جلتا رہے۔دوست نے اسے اپنے دفتر ہی میں پرائیویٹ نوکری دے دی۔ باپ نے ہدایت کی کہ بیٹا وہ میرا بچپن کا دوست ہے اس کو شکایت کا موقع نہ دینا اور اس کا خیال اپنے باپ ہی کی طرح رکھنا۔لڑکی ایک دن مجھے بتا رہی تھی کہ میں تو اپنے والد کی ہدائت پر ان کا خیال باپ ہی کی طرح ر کھ رہی ہوں مگر وہ باپ کیا ان کے پاس تو شرم نام کی چیز بھی نہیں۔ ان کی حرکتوں کو بتاتے بھی مجھے شرم آتی ہے۔ مگر مجبور ہوں۔ نوکری چھوڑ نہیں سکتی کہ گھر کے اخراجات اسی تنخواہ سے چلتے ہیں۔ گھر والوں کو بتا نہیں سکتی کہ وہ بے بس ہیں۔ مر بھی نہیں سکتی کہ وہ جو پہلے ہی قریب المرگ ہیں، جو روز جیتے اور روز مرتے ہیں، ان کا کیا بنے گا۔وہ اس شخص سے جو اس کے والد کا بے غیرت دوست ہے نجات چاہتی ہے جس کے لئے وہ کسی قابل عزت نوکری کی تلاش میں تھی۔جہاں وہ محفوط ہو۔میری مدد چاہتی تھی۔ مگر میں اس کے دکھ میں اس کی کوئی مدد نہ کر سکتا تھا، بس چپ رہا۔

وہ میرا دوست ارب پتی ہے۔ آمدن آتی ہے گنتا ہے اور چھپا لیتا ہے۔ کوئی مجبوری میں سستی زمین بیچ رہا ہو تو فوراًخریدنا اس کا مشغلہ ہے، جس پر وہ خوش بھی ہوتا ہے کہ اس کی مجبوری کتنی سستی خرید لی۔بچوں کی شادی نہیں کرتا کہ پیسے خرچ ہو جائیں گے۔بیٹی جوانی سے بڑھاپے کو گامزن تھی۔ رشتہ داروں میں کوئی لڑکا اس بچی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ماں نے بیٹی کی ڈھلتی عمر دیکھ کر اس لڑکے سے بچی کا نکاح کر دیا۔ میاں بیوی نے ایک سال تو ہنسی خوشی گزار لیا۔پھر اختلافات شروع ہو گئے لڑکے کا موقف تھا کہ اس نے شادی اسی لئے کی تھی کہ اس کے باپ کے پاس جو دولت ہے اس میں سے اپنا حصہ لے کر زندگی مزے سے گزاریں گے۔ مگر یہ باپ کے خلاف کچھ سننے کو تیار ہی نہیں۔ وہ تنگ آ کر اس لڑکی کو دھوکے سے کسی رشتے دار کے ہاں چھوڑ گیا۔وہ رشتہ دار انتہائی غریب تھے اور بچی کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے تھے۔وہ بچی چھ سات ماہ ان رشتہ داروں کے ہاں رہی۔ باپ کے دوستوں نے اس کے باپ کو منانا چاہا مگر وہ ان سے بھی جھگڑ گیا۔ان مہینوں میں وہ دوست بچی اور بچی کے رشتہ داروں دونوں کا خرچ اٹھاتے رہے۔ بڑی مشکل اور مسلسل محنت کے بعد وہ دوست بچی کے میاں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ بچی کو باپ سے جو حصہ ملنا ہے وہ محفوظ ہے اور یقیناً اسے ملے گا۔ مگر بچی کے باپ کی زندگی میں یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ وہ انتظار کرے اور اپنی اور اس بچی کی موجودہ زندگی کو تلخ نہ کرے۔ آج وہ ان دوستوں کی کوششوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ لڑکی کا فیالحال اپنے باپ سے کوئی تعلق اور رابطہ نہیں مگر کل کو وراثت میں وہ یقیناً حصی دار ہو گی۔ سوچتا ہوں کہ وہ میرا دوست کیسا باپ ہے جسے بچی کی خوشیوں سے کوئی سروکار نہیں۔وہ دولت جو ابھی کسی کام کی نہیں ، اکٹھی کر کے اسے کیا ملے گا۔

بچیوں کے معاشی مسائل کے حوالے سے یہ تو چند کہانیاں ہیں۔ لیکن ایسی ہزاروں کہانیاں روز سنتا ہوں ۔ ہر کہانی اک نیا زخم اور ایک نئے درد کی آئینہ دار ہے۔ کاش ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ یہ ہماری بچیاں ہیں۔ ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔ ہمیں اس دکھ اور درد کو محسوس کرنا اور اس کا سد باب کرنا ہے مگر بات تو احساس کی ہے ۔ یہ معاشرے اور اس معاشرے کے لوگ جس سے عاری ہیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500309 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More