کسی بھی صحافی/ کالم نگار/ اینکر پرسن /مصنف /ڈرامہ
نگار /فیچر رائٹر /سٹوری رائٹر کی کارکردگی کو بطور انعام و اعزاز خراج
تحسین پیش کرنے کے لئے ایوارڈ،شیلڈ،گولڈ میڈل دیے جاتے ہیں جو مختلف
صحافتی،سماجی،کاروباری تنظیموں کی جانب سے دئیے جاتے ہیں جو کہ ایک احسن
اقدام ہے مگر منتخب افراد کو ایوارڈ،شیلڈ،گولڈ میڈل دیتے وقت کاش یہ
تنظیمیں سوسائٹیاں اپنا دل بھی فراخ کر لیں تو کتنی اچھی بات ہوگی کہ یہ
ایوارڈ کسی بھی لالچ وطمع، حرص و ہوس،بغیر کسی انٹری فیس ہوں کہ لینے والے
کو بھی ایوارڈ لیتے مزہ آئے اور دینے والے کی خوشی بھی دوبالا ہو جائے مگر
دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ایوارڈ ضرور دیے جاتے ہیں مگر فری،بغیر
پیسہ،کچھ نہ کچھ دیئییا لیے بغیر نہیں ملتے،یہ روش اچھی بات نہیں ہے۔جب آپ
کسی کو ایوارڈ بغیر کسی طمع ولالچ بغیر انٹری فیس نہیں دے سکتے تو پھر یہ
ایوارڈ دیتے جیسے فریب نما سوانک کیوں رچاتے؟کمال بات ہے کہ ایوارڈ کی جھڑی
لگی بھیڑ میں بیٹھے سبھی''مہان فنکار'' انٹری فیس یا کسی تعاون عوض وہاں
بیٹھے،کیا کیا کمال اندازاپنائے بیٹھے ہوتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ
ہے کہ اس موقع پر آپس میں باہم شیر و شکر،دوری ذرا سا بھی نہیں ہے۔یہ بات
میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میں یہ سب اچھی طرح جانتا ہوں اور سب بخوبی
آنکھوں سامنے دیکھتا ہوں اور الحمداﷲ اس وقت درجن کے حساب سے لکڑی ایوارڈ،
پلاسٹک ایوارڈ،لوہے راڈ نما ایوارڈ،سنگ مرمرایوارڈ اور بہت سے مزید اور
ڈیزائنوں سے مزین مختلف انداز سٹائل اپنائے ایوارڈز رکھتا ہوں۔بس اتنا ہی
کہوں گا کہ یہ ایوارڈ لیتے پیدا شدہ شرم ناک کہانی بیان کرنے سے مکمل طور
پر قاصر ہوں اور چاہ کر بھی نہیں بتا سکتا کہ یہ ایوارڈ کہانی تقریب
معاملات کیا رخ اختیار کیے ہوتے اور یہ ملتے ہیں تو کیسے ملتے ہیں،کھل کر
نہ سہی،کچھ نہ کچھ حقائق کھولتی صورتحال ضرور سامنے آئے گی،ہاں اس کو چند
ایک لکھاریوں کی زبانی ضرور بیان کروں گا کہ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے
میری بات۔
ایک بار ممتاز صحافی معروف کالم نگار مقصود انجم کمبوہ مرحوم نے مجھے بتایا
کہ ان کو کئی بار سماجی،فلاحی،صحافتی تنظیموں کی جانب سے گولڈ
میڈل،شیلڈ،ایوارڈ سے نوازنے کی آفر ہوئی مگر ہر بار انہوں نے لینے سے
انکارکردیا،انکارکی وجہ یہ بتائی کہ یہ گولڈ میڈل،شیلڈ، ایوارڈ جو دیے جاتے
ہیں ان سے صرف انہی افراد کو نوازا جاتا ہے جو اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ان
سے اُن افراد کو نہیں نوازاجاتا جو گولڈ میڈل، شیلڈ،ایوارڈکی قیمت ادا نہ
کر سکتے ہوں۔ایک بار 1996ء میں ایک صحافتی تنظیم نے گولڈ میڈل کے لیے نامزد
کیا اور گولڈ میڈل دینے کی مَد میں 2000 روپے مانگے، میں نے دینے سے انکار
کردیا،جس پر میری نامزدگی منسوخ کرکے میری جگہ ایک اور صاحب کو جو صحافت کی
الف ب سے بھی واقف نہ تھے،بس روپے کی چمک دھمک دکھانے پر پیسوں کی جھنکار
میں گولڈ میڈل سے نواز دئیے گئے۔اسی طرح 1999ء میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی
سلوک روا رکھاگیاجب ایک ادارے کی طرف سے ان کو ایک لیٹر موصول ہوا کہ آپ کو
جرأت مندانہ،بلیک میلنگ سے پاک،صاف ستھری صحافت کرنے پر گولڈ میڈل سے نوازا
جائے گا،جب رابطہ کیا تو پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی 3000 روپے مانگے گئے
مگرآپ کی شخصیت نے یہ گوارا نہ کیااور گولڈ میڈل کا تاج اپنے سر پہننے سے
انکار کردیا۔ایک بار 2007 ء میں ایک صحافتی تنظیم کی جانب سے صحافیوں،کالم
نگاروں کو تعریفی اسناد،شیلڈ، ایوارڈ اور گولڈ میڈل سے نوازاجارہا تھا،وہاں
پر بھی ان سے وہی بات،گولڈ میڈل کے عوض 5000 روپے دینے کی بات ہوئی،لینے سے
انکار کرتے رابطہ منتظمین کو کھری کھری سنائیں کہ یہ کیا انداز ہے کارکردگی
کو جانچنے کا اور ایوارڈ دینے کااور مزید کہا کہ آپ کیسے لوگ ہو،کیسے
انداز،طریقے،حلیے اور بہروپ اپنائے ہوئے خود ساختہ صحافتی تنظیمیں
بنائے’’خوش فہمی‘‘ ایوار ڈ جھڑی لگائے، کیسے کیسے کھیل
رچائے،مصنفوں،ادیبوں،کالم نگاروں،فیچر نگاروں،ڈرامہ نگاروں کے پاک جذبات سے
کھیلے،کھلواڑ کئے،کیا کیاگیم بنائے بیٹھے ہیں تو وہاں پرموجود ایک شخص نے
بقول ان کے،ان سے کہا کہ مقصود انجم کمبوہ صاحب!’’آپ صحافتی دنیا کے چمکتے
ستارے،بہت سے فین رکھتے،ابھی تک اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہاں گولڈ میڈل
ملتے نہیں بلکہ پیسوں کے عوض،روپوں کی جھنکار میں کچھ دو کچھ لو،تعاون کے
فلسفے کے تحت ایک گیم سٹائل اپنائے بکنے والے انداز میں ملتے ہیں۔دوسری بات
یہ کوئی حکومتی ایوارڈ یا گولڈ میڈل تھوڑا جو مفت اور تعاون کے بغیر مل
جائے،ویسے حکومتی ایوارڈ،میڈل آپ کو مل بھی نہیں سکتا کیونکہ جس لیول کی
صحافت آپ کرتے ہو،وہ ایوارڈ اور انعام کی حقدار نہیں،پھر یہ ایوارڈ اسے
ملتا ہے جو چڑھتے سورج کو سلام کرے نہ کہ تنقید۔ادارے،تنظیمیں،سوسائٹیز محض
اپنی مشہوری اور صحافی کی پبلسٹی کے پیش نظر ایوارڈ،شیلڈ،گولڈ میڈل سمیت
تعریفی اسناد کسی نہ کسی تعاون کے عوض بیچنے والے انداز سے دیتی ہیں۔ آپ کی
یہ باتیں ہی آپ کے ایوارڈ، شیلڈ،گولڈ میڈل ملنے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں
وگرنہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح تعاون اور چاپلوسی کا راستہ اپنائے ایوارڈ
کے حقدار بنتے، گولڈ میڈلسٹ صحافی کہلواتے مگر افسوس آپ اس کے اہل نہیں ہو
سکتے،ویسے بھی آج کے دؤر میں گولڈ میڈلسٹ صحافی،لکھاری بننے کیلئے سیاستدان
کی تھپکی،پولیس افسران کا آشیر باد،مقامی غنڈے کی ہلا شیری،معاشرتی رویوں
سے انکار اور آوازضمیر کو جانچنے سے عاری ہوناضروری ہے۔
آج موجود دور میں بھی حال میں ہی قائم کچھ نام نہاد صحافی تنظیموں کا وطیرہ
بھی تقریباًماضی کی ملتی جلتی تنظیموں،سوسائٹیزاور اداروں جیسا ہے
جوایوارڈ،شیلڈ،گولڈ میڈل اور تعریفی اسناد کے نام پر مختلف النوع طریقے
اپنائے، رنگ برنگی پھلجھڑیاں چھوڑے، ایسے، ویسے، اِس طرح،اُس طرح، یہ
کرکے،وہ کرکے،یہ ایوارڈ ملے گااور ایسے ویسے، اس طرح، یہ نہ کرتے،وہ نہ
کرتے،یہ ایوارڈ نہیں ملے گا،مختلف صحافتی،بے نام تنظیموں کے پلیٹ فارم سے
اکثر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئے،مختلف طرح کی جاہلانہ،رذیلانہ، خودپسندانہ
راگنیاں چھیڑے اپنی آپسی گفتگو میں کتنے پیسے آئے،کتابیں کتنی بنیں، کتنے
مصنف،لکھاری،صحافی ہمارے دام فریب میں پھنسے، ایوارڈ تعاون کہانی،اسٹیج
کہاں تک پہنچی،کوئی اپنا پیٹ بھی بھرا،کہتے،سوچتے، بتاتے نظر آتے ہیں۔محض
صرف اپنی تنظیمی دکانداری چلانے کیلئے ایسا کرتے، صحافیوں کی فلاح و بہبود،
تنظیم سازی، تکالیف و درد،صحافیوں کو پیش آنے والے واقعات پر کوئی مثبت
کاروائی یا اکٹھ نہ ہونے کے برابر ہے۔بس تنظیم اورصرف ہم ہی اصل بات،اصل
مشن اور کام ٹھہرا۔
معروف صحافی،ممتاز کالم نگار رشید احمد نعیم صاحب سے جب ایوارڈ کی تقسیم کے
متعلق سوال کیا تو انہوں نے نہایت ہی معانی خیز ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ اس
پہ لب کشائی کی بجائے خاموشی ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ جس طرح صحافت خدمت
خلق سے صنعت و تجارت کا روپ دھار چکی ہے اسی طرح آج کل اکثر تنظیموں نے اسے
اپنا کاروبار بنا لیا ہے۔ کڑوا سچ،تلخ حقیقت اور قومی ادبی المیہ ہے۔اخلاقی
اقدار زوال پزیری کا شکار ہو رہی ہیں اور اس کام کو باقاعدہ تجارت بنا لیا
گیا ہے''۔ایک بار ایک صحافتی تقریب میں جو ایک اخبار کی طرف سے منعقد تھی
میں ایک معروف صحافی،کالم نگار(جو ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں اور بہت ہی
اچھا لکھتے ہیں۔علم و ادب اور صحافت میں اپنا ایک اعلیٰ مقام رکھتے
ہیں،ادبی حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں)ایوارڈ کیلئے نامزد
تھے مگر ایوارڈ کے وقت ایوارڈ نہ ملا،ایوارڈ گم تھا،بہت کوششوں سے ایوارڈ
روم میں ڈھونڈنے سے ملا،فرماتے تھے کہ بس وہاں ایوارڈز کی ایک جھڑی لگی
ہوئی تھی،معاملہ کچھ یوں بنا ہوا تھا کہ حقیقت میں اپنا نام دیکھ اور
اٹھالو۔۔۔۔۔بس اور کچھ نہ تھاکہ اپنی پرسنل ایڈورٹائزمنٹ کاسامان اور ایک
صاحب کی اپنی ذاتی مشہوری کیلئے سجایا گیا شو زیادہ تھا۔ قارئین اس سے
زیادہ اور کیا کہوں کہ ایوارڈ تقریب بس ’’میں تیرے لئے تو میرے لیے‘‘ ’’تو
مجھے قبول میں تجھے قبول‘‘ ’’تومجھے ایوارڈ دے میں تجھے ایوارڈ دوں‘‘’’آپ
کہیں ماشاء اﷲ سلامت رہیں اور میں بولوں کہ جئیں ہزاروں سال‘‘۔۔۔۔۔میری اب
تک کی نظر کے مطابق جی حضوری، چاپلوسی، خوشامد میں ماسٹر سٹروک ہولڈر
صحافی،لکھاری،مصنف ہی اِن ایوارڈ،شیلڈ،گولڈ میڈل اور تعریفی اسناد کا سب سے
زیادہ حقدار اور مستحق، اس کے علاوہ باقی تو کالم نگاری میں اپنے کام کو ہی
اپنا حقیقی صحافتی ایوارڈ گردانتے،اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں
جبکہ معاملہ بھی کچھ شہرہجوم،میدان صحافت میں ایسا چل رہا ہوکہ ’’اناّ ونڈے
ریوڑیاں۔۔۔مڑ مڑ آپنیاں نوں
|