بھوکے بچوں کو کھانا کھلانے والا بل دیکھ کر رو پڑا٬ دو ایسے بل جن کی ادائیگی کسی انسان کے بس میں نہیں

image
 
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک درد مند دل رکھا ہے تاکہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی تکلیف کو نہ صرف محسوس کر سکے بلکہ ان کی مدد کے لیے کوشش بھی کر سکے۔ اچھے کاموں کو کرنے والوں کا تعلق کسی خاص مذہب یا قومیت سے ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے انسان کے سینے میں ایک دھڑکنے والا دل اور محسوس کرنے والی روح کا ہونا ضروری ہے- آج ہم آپ کو نیکی کے کچھ ایسے ہی واقعات کے بارے میں بتائيں گے جو ایک مثال قائم کر دیں-
 
انسانیت کا کوئی بل نہیں ہوتا ہے
یہ کہانی اکلیش کمار کی ہے جو کہ دبئی کی ایک کمپنی میں بطور سینئير ٹیکنیکل سیلز انجینئیر کے طور پر کام کر رہے ہیں- یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ وہ مختصر چھٹیوں پر اپنے آبائی شہر کیرالہ آیا تھا جہاں پر وہ رات کا کھانا کھانے کے لیے جب ہوٹل سبرینا آیا اور اس نے کھانا آرڈر کیا-
 
جب اس کا کھانا سرو کیا گیا تو اس نے دیکھا کہ ہوٹل کے دروازے کے باہر سے ایک معصوم بچہ اس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا یہ بچہ ایک کچرا چننے والا بچہ تھا جس کا لباس چیتھڑوں کی صورت میں تھا اور اس کے ہاتھ پاؤں مٹی سے بھرے ہوئے تھے اس کو دیکھ کر اکلیش کو بہت دکھ ہوا اور اس نے باہر جا کر اس بچے کو اندر بلا لیا-
 
اس بچے کے ساتھ ہی اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو اس کے ساتھ ہی اندر آگئی اکلیش نے ان دونوں کے لیے کھانا آرڈر کیا کھانا آنے پر ان بچوں نے اکلیش سے ہاتھ دھونے کا پوچھا-
 
image
 
اکلیش نے ان کو باتھ روم کا بتایا اور دونوں بچوں نے وہاں جا کر ہاتھ دھوئے اور اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آنے والا کھانا پیٹ بھر کر کھایا اس دوران انہوں نے خاموشی کے ساتھ ایک لفظ بولے بغیر کھانا کھایا-
 
کھانا کھانے کے بعد وہ چلے گئے ان بچوں کو دیکھ کر اکلیش کی اپنی بھوک اڑ چکی تھی مگر جیسے تیسے اس نے کھانا کھایا اور اس کے بعد اس نے بل منگوایا جب اس نے بل دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے-
 
اس بل پر کوئی رقم درج نہ تھی اس کی جگہ پر اس کے لیے ایک پیغام لکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی مشین نہیں ہے جو انسانیت کا بل بنا سکے۔ اس کا صلہ اوپر والا ہی دے سکتا ہے-
 
یہ کہانی ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعے کسی نامعلوم شخص نے شئير کی اکلیش نے اس کہانی میں اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس کے بارے میں لوگوں کو پتہ نہ چل سکے مگر اس کہانی کے وائرل ہونے کے بعد اس کی شناخت چھپی نہ رہ سکی اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چل گیا اور لوگوں نے اس کے اس عمل کی بے طرح تعریف کی-
 
لوگوں کو ان کے بچھڑوں سے ملانے والا نوجوان
اسی طرح کا ایک اور گمنام سپاہی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان عامر راشد وانی بھی ہے جس کے نیکی کے سفر کا آغاز اکتوبر 2019 سے ہوا جب کہ بھارتی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 لگانے کے بعد اچانک ہی مقبوضہ کشمیر کا تعلق پوری دنیا سے کٹ گیا تھا-
 
اس وقت میں کشمیر کا دنیا بھر سے ہر طرح کا تعلق ختم ہو گیا تھا موبائل فون انٹرنیٹ سب بند کر دیا گیا تھا ایسے میں بہت سارے کشمیری جو کہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں تھے ان کا تعلق اپنے پیاروں سے ختم ہو گیا تھا اور وہ ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھے-
 
اس صورتحال میں بہت سارے کشمیری طالب علم جو کہ ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم کے سلسلے میں رہائش پزیر تھے بالکل تنہا ہو گئے تھے- ایسے میں عامر راشد جو چندی گڑھ میں بی ای کا طالبعلم تھا آگے بڑھا اور اس نے ایک بڑے کام کا آغاز کیا جس کے ذریعے اس نے بہت سارے بچھڑے لوگوں کو اپنے پیاروں سے نہ صرف ملوایا بلکہ ان کی خیر خبر بھی دوسروں تک پہنچانے کے رابطے کا وسیلہ بنا -
 
image
 
عامر راشد نے موج کاشیر ویلفئیر کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جو کہ ایک نان پرافٹ تنظیم ہے اس تنظیم نے کوویڈ 19 کے دور میں بھی کافی کام کیا اور اپنے گھروں میں محصور غریب افراد تک کھانا اور ادویات کی ترسیل بھی کی-
 
عامر کی اس تنظیم میں 50 سے زيادہ افراد مل کر کام کر رہے ہیں اور وہ غریب لڑکیوں کی شادی ، غریب طالب علموں کی تعلیم اور بیمار افراد کے علاج کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں-
 
ان افراد کی نیکیوں کا صلہ اگرچہ اس دنیا کے افراد کے لیے دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ وہ لوگ ہیں جو کہ انسانیت کی بنیاد پر انسانوں کے لیے کام کر رہے ہیں اور تعریف کے مستحق ہیں اور باقی لوگوں کے لیۓ ایک مثال ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: