خواجہ سراؤں پر تنقید، ماریہ بی کا خبروں میں رہنے کا گُر

پاکستان میں شوبز انڈسٹری ہو یا فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں سے وابستہ شخصیات اور سیاستدان، جس میں کوئی ٹیلنٹ نہ ہو یا پھر اسے محسوس ہوکہ لوگ اسے اہمیت نہیں دے رہے تو کوئی بھی ایجنڈا اٹھا کر یا اول فول ہانک کر میڈیا اور عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی کئی اداکارائیں تو اس سلسلے میں بدنام تھیں ہی لیکن فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے بھی کچھ عرصے سے یہ وتیرہ اپنا لیا ہے کہ خبروں میں رہنا ہے تو کوئی بھی اختلافی بات ایسی چھیڑتے رہو کہ سوشل میڈیا اور عوام کی نظروں میں نام زندہ رہے۔ اب یہ نام، نامی ہو یا بدنامی، اس سے غرض نہیں ہوتی۔

اس بار ماریہ بی نے خبروں میں رہنے کےلیے اے آر وائی چینل پر نشر ہونے والے ڈرامے ’’سرِ راہ‘‘ کی ایک قسط ’’تو اُڑ جا بے فکر‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس ڈرامے میں پاکستانی اداکار منیب بٹ نے ایسے خواجہ سرا کا کردار ادا کیا ہے جو بچپن سے اپنی سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کے ناروا سلوک اور معاشرے کی بے اعتنائی کا شکار ہے لیکن اس کا باپ ہی وہ واحد فرد ہے جو اسے اپنی شخصیت کے ساتھ معاشرے میں مثبت انداز میں باعزت طور پر جینے کا حوصلہ عطا کررہا ہے۔

بلاشبہ ڈرامے کی کہانی مضبوط ہے اور ایک ایک ڈائیلاگ بہت سوچ سمجھ کر لکھا گیا ہے، نیز ہمارے معاشرے سے بغاوت کرتے ہوئے ایک ٹرانس جینڈر کو تالیاں پیٹ کر بھیک مانگنے اور سیکس ورکر بننے کے بجائے تعلیم حاصل کرکے باعزت زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن یہی بات ماریہ بی کو ہضم نہیں ہوئی۔ ایسی ہی فرسودہ خیالات کی عورت اس ڈرامے میں بھی موجود ہے جو منیب بٹ کی سوتیلی ماں کا کردار ادا کررہی ہے، جس کا خیال ہے کہ ایک خواجہ سرا کو عورتوں کا روپ دھار کر، تالیاں بجاکر اور ڈانس کرکے بھیک مانگنا چاہیے۔ انھیں زندگی میں باعزت جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شاید ماریہ بی کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں، اس لیے انھوں نے ڈرامے کے تمام تر مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈرامے کا ایک سین سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’’ٹرانس جینڈر ایجنڈے کو مغرب کی طرف سے پاکستان پر تھوپا جارہا ہے۔‘‘
’’اس سے ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کو رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
ماریہ بی کو خبروں میں رہنے کا شوق ہے اور اس وقت سوشل میڈیا صارفین ان کی اس خواہش کو پورا کررہے ہیں۔ لیکن شاید ماریہ بی کی خواہش کے برخلاف اس وقت وہ سوشل میڈیا صارفین کی شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ صارفین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ ’’ماریہ بی جیسے چھوٹے ذہن کے لوگوں کی وجہ سے ہی ہزاروں خواجہ سراؤں کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور پھر وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔‘‘

یا تو ماریہ بی نے یہ ڈرامہ واقعی مکمل نہیں دیکھا یا پھر دیکھ کر انجان بن گئیں اور صرف اپنے مطلب کا کلپ نکال کر شیئر کردیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جس منظر پر تنقید کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر ایجنڈا کہہ رہی ہیں، اس میں ایک باپ اپنے ٹرانس جینڈر بچے کو زندگی میں آگے بڑھنے اور برے حالات میں معاشرے کا مقابلہ کرنے کی تلقین کررہا ہے۔ ماریہ بی نے اپنے موقف کی حمایت میں مذہب کو بھی درمیان میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’بچے کو شریعت کے مطابق لڑکا یا لڑکی بننے کی رہنمائی کرنے کے بجائے ٹرانسجینڈر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘ شریعت اور اسلام کی بات کرتے ہوئے شاید ماریہ بی بھول گئیں کہ برسوں سے وہ جس فیشن انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور جو کپڑے ڈیزائن کررہی ہیں ان میں کس حد تک ’’شریعت‘‘ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بہرحال یہ تو ایک بالکل ہی الگ موضوع ہے لیکن اپنے مفادات کےلیے مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ماریہ بی اس مخصوص موضوع کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنی ہوں، بلکہ اس سے پہلے بھی خواجہ سرا ڈاکٹر مہرب معیز اعوان سے سوشل میڈیا پر لفظی جنگ چھیڑ کر وہ اس ’’تشہیر‘‘ سے لطف اندوز ہوچکی ہیں اور جب انھیں اندازہ ہوا کہ اس طرح بھی خبروں میں رہا جاسکتا ہے تو پھر انھوں نے اسی موضوع کا سہارا لیتے ہوئے ڈرامہ ’کچھ اَن کہی‘ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہمارے پاس ایسے ڈرامے بھی ہیں جو ٹرانسجینڈرز کو فروغ دیتے ہیں۔‘‘

ماریہ بی کے اسی رویے پر ایک سوشل میڈیا صارف نے یہاں تک لکھا کہ ’’میں اب تک یہ سوچنے کی کوشش کررہی ہوں کہ ماریہ بی کا ٹرانس جینڈرز کے خلاف کون سا ذاتی ایجنڈا ہے۔‘‘ اور حقیقت میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے کہ ماریہ بی وقتاً فوقتاً ٹرانس جینڈرز کے خلاف کسی ایجنڈے کے تحت یہ ’’پھلجڑیاں‘‘ چھوڑتی رہتی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ماریہ بی کا برانڈ ایسے کسی گھٹیا اسٹنٹ کا محتاج نہیں ہے، ماریہ بی کے ڈیزائن کردہ کپڑے یوں بھی فروخت ہوجاتے، اس کےلیے خواجہ سراؤں جیسے مظلوموں کو تختہ مشق بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ماریہ بی صاحبہ! سوشل میڈیا صارفین بالکل درست کہہ رہے ہیں، خواجہ سراؤں کےلیے آپ کا ذاتی ایجنڈا چاہے جو بھی ہو لیکن یاد رکھیے کہ خواجہ سرا بھی ہماری طرح خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ وہ چاہے مرد ہیں نہ عورت مگر انسان ہیں، اس لیے اتنا ہی عزت کے لائق ہیں جتنی کہ خود آپ۔ خواجہ سراؤں کے خلاف نفرت اجاگر کرنے کے بجائے خود کو انسانیت کا درس دیجیے۔

Syed Ali Haider
About the Author: Syed Ali Haider Read More Articles by Syed Ali Haider: 4 Articles with 1418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.