اس دن تمام نیوز چینلنز پر ایک ہی بریکنگ نیوز سب کی توجہ
کا مرکز تھی اور وہ تھی کبیراعظم کی گرفتاری کی۔ خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل
چکی تھی کیونکہ کبیر اعظم کی تلاش میں پولیس، اینٹیلیجنس اور سیکیورٹی
ادارے کافی عرصے سے جگہ جگہ کی خاک چھان رہے تھے۔ کبیراعظم سے انٹرویو کرنے
کے لۓ ہر نیوز چینل کے رپورٹرزاوراینکرزسرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ لیکن جس کو
کامیابی حاصل ہوئ وہ گلناز شبیرتھی جو 'نیوز ویوز' چینل سے منسلک تھی۔
انٹرویو کی اجازت تو ملی مگر صرف 20 منٹوں کے لۓ۔
منگل کی شام کیبراعظم کا لائیوانٹرویوآنا تھا۔ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق
رکھنے والے بے چینی سے انتظار کر رہے تھے اور ٹی وی سکرین پر ٹکٹکی باندھے
بیٹھے تھے کیونکہ آج شاید انہیں کبیر اعظم کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو مل
سکے اور جو جھوٹی سچی خبریں اسکے بارے میں گردش کرتی رہتی تھی ان کی شاید
کچھ تصدیق ممکن ہو۔
گلناز: السلام علیکم ناظرین۔ امید ہے آپ سب خیریت سے ہونگے اورکبیراعظم کے
انٹرویو کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہونگے۔ میں بلا تمہید و تعطل اپنے
انٹرویو کا آغاز کرتی ہوں۔
جی کہاں سے شروع کرینگے آپ؟ سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ نے یہ ہی راستہ
کیوں چنا دولت کمانے کے لۓ؟
کبیراعظم: معذرت کے ساتھ آپ نے سوال ہی غلط کیا کہ دولت کمانے کے لۓ کیونکہ
اصل وجہ کچھ اور ہے۔ آپ نے دولت، روپے، پیسے، روٹی کی بھوک کے بارے میں
ضرور سنا ہو گا۔ مگر آج میں ایک نئ بھوک متعارف کروانے لگا ہوں اور وہ ہے
'عزت کی بھوک'۔ کیا آپ اس کے نام سے واقف ہیں؟ یقیناً یہ آپ کو شاید نیا
لگا ہو گا مگر آج بھی ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ ہیں جو صرف اس ہی بھوک کو
ترستے ہیں مگر لب نہیں کھول پاتے۔
آج میں آپ کو اپنی زندگی کی کتاب کے تمام اوراق پڑھ کر سناؤنگا شاید کہ
میری بات کسی کے دل میں جگہ بنا پاۓ۔
میرے ابا کا تعلق پنجاب سے ہے اور اماں کشمیری ہیں۔ میرے ابا کا رنگ گندمی
اور قد درمیانہ ہے جبکہ میری والدہ کشمیری ہونے کے ناطے گورے رنگ اور گہری
سبز آنکھوں کی مالک ہیں۔ ہم دو بھائ اور ایک بہن ہیں۔ میرے بڑے بھائ قد
کاٹھ اور شکل و صورت میں میرے ابا سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ مجھ میں اور
میری بہن میں اماں کی جھلک ذیادہ ہے۔
میں شروع سے ہی خوش مزاج تھا۔ اماں ابا کا ہر حکم سر آنکھوں پر رکھتا ہوں
آج تک۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اب مجھ سے بہت نالاں اور ناراض ہیں اور کیوں نہ
ہوں میں نے انہیں کہیں منہ دکھانے کے قابل جو نہیں چھوڑا۔
میرے بھائ کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا جس کے لۓ انہوں نے خوب محنت
کی اور نیوروسرجن بن گۓ۔ میں ہمیشہ سے ہی کھلنڑا سا تھا اور پڑھائ سے کچھ
خاص دوستی نہ تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ذہانت کی کمی تھی بس پڑھنے لکھنے میں
دل نہیں لگتا تھا۔ بیچلرز کے امتحان سے فارغ ہوا تو ابا نے مجھے ایک اچھا
سا جنرل اسٹور کھلوا دیا تاکہ میرا ذہن بھی کسی کام میں مصروف رہے اور
ذریعۂ معاش کا مستقل بندوبست بھی ہو رہے۔ بزنس کے نظریہ سے میرا دماغ خوب
چلتا تھا۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ جیسے میں اپنی عزت و
وقعت کھوتا جا رہا ہوں۔ کسی بات میں مشورہ لینا تو درکنار میرے گھر والے تو
اہم معاملات سے مجھے دور ہی رکھتے۔ جو مشورہ کرنا ہوتا میرے بڑے سے کیا
جاتا کیونکہ وہ نہ صرف اچھے پیشے سے منسلک ہیں بلکہ نئ ماڈل گاڑی اور شہر
کے پوش علاقے میں ذبردست بنگلے کے مالک بھی ہیں۔ عزیز، رشتہ دار، دوست
احباب بھی مجھے دوکاندار ہی سمجھتے اور عزت نہ دیتے۔ اگر کسی کے گھر ہم
دعوت پر موعو ہوتے تو سب بھائ کی ہی آؤ بھگت کرتے نظر آتے۔ خاص کر وہ لوگ
جن کی بیٹیاں ہوتی اور وہ بھائ صاحب کو اپنا داماد بنانا کے خواہشمند ہوتے۔
غیروں کے رویوں نے مجھے اتنی تکلیف نہیں پہنچائ جتنا اپنوں کی بے رخی نے۔
بھائ کو اس لۓ بھی اہمیت ذیادہ دی جاتی کیونکہ وہ ہمارے گھر کے آدھے سے
ذیادہ اخراجات جو اٹھاتے۔ میں بھی کبھی اپنے والدین کی ذمہ داری اٹھانے میں
چوکتا نہ تھا مگر ہر کسی کے سامنے ان کی زبان سے بھائ کی ہی تعریف سننے کو
ملتی اور مجھ ناچیز کو کوئ خاطر میں نہ لاتا۔
وقت کے ساتھ مجھے اس بات کا انداذہ ہو گیا کہ ہمارے معاشرے میں عزت صرف
روپے پیسے کی ہے، انسان کی کوئ قدرنہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی عزت
خریدنے کی کوشش کروں۔ جس کے لۓ مجھے ہر حال میں دولت کمانی تھی، جائز
ناجائز جس طرح سے بھی۔ پہلے تو میں نے اپنا شہر بدلا، والدین سے نوکری کا
بہانہ کر کے۔ اپنے دوست کے ساتھ شروع شروع میں چھوٹی موٹی چوری ڈکیتیاں کیں
اور پھر بڑے ڈاکے ڈالنے شروع کیۓ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک منظم
گینگ تیار کر لیا، پھر میں صرف انہیں ہدایات دیتا اور وہ میرے اشاروں پر
شہر میں واردات کرتے۔ اور یوں میں ایک بہت با اثر ڈان بن گیا جس سے میرے
گھر والے ناواقف رہے۔ پھر کیا تھا میں نے اپنےوالدین کو گھر کے اخراجات کے
لۓ اچھی خاصی رقم بھیجنا شروع کر دی اور ایک عالیشان بنگلے کے ساتھ نئ
مرسڈیز بھی خرید لی۔ میں ہر مہینے اپنے والدین سے ملنے جاتا اوراپنی چمکتی
دمکتی گاڑی سے اترتا تو میرے والد صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ والدہ خوب
صدقے واری جاتیں اور کافی خاطر مدارت ہوتی میری۔ وہی محلے والے جو مجھے
دوکاندار ہونے کے باعث عزت دار نہ سمجھتے، وہی رک رک کر مجھے سلام کرتے اور
اچھے تعلقات بنانے کی جستجوکرتے نظر آتے۔
یوں کسی حد تک میری عزت کی بھوک ختم ہو گئ مگر اس کے لۓ مجھے بڑی قیمت ادا
کرنی پڑی (یہ کہتے ہوۓ نہ صرف کبیر اعظم کی آواز بھرا گئ بلکہ آنکھوں میں
بھی نمی اتر آئ) میں نے اپنا ایمان بیچا، والدین کو دھوکے میں رکھا، لوگوں
کے کماۓ حلال مال کو اپنے لۓ حلال کیا۔ میں جانتا ہوں عزت خریدنے کا طریقۂ
کار درست نہیں مگر کیا اچھا ہوتا کہ میرے والدین اور دیگر لوگ مجھے
دوکاندار کی حیثیت سے ہی عزت دے دیتے تو آج میں یہاں نہ ہوتا۔میں آپ سب سے
درخواست کرنا چاہونگا کہ معاشرے میں ہر شخص کو عزت دیجیۓ انسان ہونے کے
ناتے نہ کہ اس کے پیشے کے حوالے سے تاکہ کوئ اور کبیراعظم اس معاشرے میں
جنم نہ لے سکے۔
20 منٹ کی بجاۓ انٹرویو 40 منٹ طویل ہو گیا مگر نہ نیوز چینل نے اسے ختم
کیا نہ ناظرین نے اسے ادھورا چھوڑا۔
|